امام مبین (قرآن)
امام مبین قرآن کے کلمات میں سے ایک ہے جوکہ سورہ یس اور سورہ حجر میں وارد ہوا ہے۔ سورہ یس میں آیت کے ذیل میں بعض نے اس کو قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نام اور قرآنی صفات میں سے ایک صفت قرار دیا ہے۔
اجمالی تعارف
امامِ مبین کا تذکرہ قرآن کریم میں دو جگہ وارد ہوا ہے۔ سورہ حجر میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ وَإِنَّهُما لَبِإِمامٍ مُبين؛
پس ہم نے ان سے انتقام لیا اور وہ دونوں کھلے راستے اور شاہراہ پر ہیں۔ [۱]
اس آیت کریمہ میں امام مبین کھلی شاہراہ اور وسیع راستے کے معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے امام مبین ہماری بحث سے خارج ہے۔ سورہ یس میں امام مبین کا تذکرہ اس طرح وارد ہوا ہے:
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْناهُ في إِمامٍ مُبِيۡنٍ؛
اور ہم نے ہر شیء کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔[۲]
اس آیت کریمہ میں امام مبین کو انتہائی بلند مقام و منزلت کا حامل ذکر کیا گیا ہے جس میں ہر شیء کو اللہ تعالی نے جمع کر دیا ہے۔
علومِ قرآنی میں مذکور ہے کہ سورہ یس میں امام مبین قرآن کریم کے اوصاف میں سے ہے اور قرآن کی ایک صفت کے طور پر آیا ہے۔
امام مبین کے معانی
مفسرین نے امام مبین کی تفسیر میں مختلف اقوال ذکر کیے ہیں۔ بعض مفسرین قائل ہیں کہ امام مبین سے مراد لوح محفوظ ہے۔
بعض نے امام مبین سے مراد قرآن کریم لیا ہے۔ بعض مفسرین نے متعدد روایات کی بناء پر امام مبین کا مصداق امام علیؑ کو قرار دیا ہے، جیساکہ شیخ صدوق نے معانی الاخبار میں امام باقرؑ کے طریق سے روایت نقل کی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں:
لَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ كُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْناهُ فِي إِمامٍ مُبِينٍ قَامَ أَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ مِنْ مَجْلِسِهِمَا فَقَالا يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ التَّوْرَاةُ- قَالَ لَا قَالا فَهُوَ الْإِنْجِيلُ قَالَ لَا قَالا فَهُوَ الْقُرْآنُ قَالَ لَا قَالَ فَأَقْبَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ ع فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ هَذَا إِنَّهُ الْإِمَامُ الَّذِي أَحْصَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فِيهِ عِلْمَ كُلِّ شَيْءٍ؛
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی -
ہم نے ہر شیء کو امام مبین میں جمع کر دیا ہے- تو ابو بکر اور عمر اپنی جگہوں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھے اور پوچھا:
اے اللہ کے رسول ﷺ !
امام مبین سے مراد تورات ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نہیں، دونوں نے کہا:
کیا اس سے مراد قرآن ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اتنے میں امیر المؤمنین (علیہ السلام) تشریف لائے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یہ ہے وہ امام جس میں اللہ تبارک و تعالی نے ہر شیء کا علم جمع کر دیا ہے۔ [۳] [۴] [۵] [۶] [۷]
حوالہ جات
۱. حجر/سوره۱۵، آیت ۷۹۔
۲. یس/سوره۳۶، آیت ۱۲۔
۳. صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۹۵۔
۴. رامیار، محمود، ۱۳۰۱ - ۱۳۶۳، تاریخ قرآن، ص۳۱۔
۵. فخر رازی، محمد بن عمر،التفسیر الکبیر، ج۲۶، ص ۴۹-۵۰۔
۶. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ج۸، ص۲۶۳۔
۷. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۷، ص۶۷۔
مأخذ
فرہنگ نامہ علوم قرآنی، یہ تحریر مقالہ امام مبین (قرآن) سے مأخوذ ہے۔
بعض مطالب محققين ويکی فقہ کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔