عدالت صحابہ کا نظریہ، مکتب اہل بیت کی نظر میں
عدالت صحابہ کے نظرئے سے یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر صحابی (خواہ وہ نہایت مختصر مدت کے لیے صحابی رہا ہو ) عادل ہے ۔وہ جھوٹ نہیں بولتا اور عمداً خطا نہیں کرتا ۔اس کے قول و عمل اور اس کی روایت کی پیروی جائز ہے نیز وہ دوسروں کے لیے حجت کی حیثیت رکھتا ہے ۔
یہ نظریہ مخصوص سیاسی اہداف کی خاطر ایک خاص سیاسی ماحول میں پروان چڑھا ۔اس کا بنیادی مقصد اموی اقتدار کو مضبوط کرنے، ان کے تصرفات واقدامات کو جواز فراہم کرنے اور انہیں شرعی لبادہ پہنانے سے عبارت تھا ۔
بعض انتہا پسندوں نے اس نظرئے کو اپنالیا اور امت مسلمہ کے درمیان اس کی ترویج کے لیے جد وجہد کی ۔ ان عناسر نے اس نظرئے کو اہل بیت علیہم السلام کے موقف کے متبادل طور پر پیش کیا اور مکتب اہل بیت کو رد کرنے کی دلیل کے طور پر اس سے استفادہ کیا ۔وہی اہل بیت جن کی عصمت کو قرآن کریم نے آیت تطہیر میں یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ اللہ نے ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور کیا ہے اور انہیں اس طرح پاک کیا ہے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے ۔
اگرچہ اس نظرئے کا پرچار کرنے والوں نے اسے مضبوط بنانے اور علمی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے لیکن مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس نظرئے کو رد کیا ہے ،اس کے دلائل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان دلائل کے نتائج کو قبول نہیں کیا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نظرئے کے دعویداروں نے بذات خود اس نظرئے کی پیروی نہیں کی ہے کیونکہ وہ
خلفاء اور حکام کے ان اقدامات کی توجیہ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی حکومت پر تنقید کرنے والے اصحاب کے خلاف انجام دیے تھے۔ عدالت صحابہ کے نظرئے کے بارے مکتب اہل بیت کے درست نقطۂ نظر سے آشنائی کے لئے پہلے ہم’’ صحبت ‘‘ کے لغوی معنی پر روشنی ڈالیں گے پھر اس بارے میں قرآنی موقف اور اہل بیت علیہم السلام کے بعض فرمودات پر گفتگو کریں گے ۔اس کے بعد ہم اس نظرئے کے دلائل پیش کریں گے اور کتاب و سنت کے فرمودات کی روشنی میں ان دلائل کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لیں گے ۔بعدازاں ہم ان اسباب کی طرف اشارہ کریں گے جن کے باعث یہ نظریہ پروان چڑھا۔
صحبت کے لغوی معنی
راغب اصفہانی کہتے ہیں : صاحب سے مراد ہے ساتھی ، خواہ اس کی مصاحبت جسمانی ہو جو مصاحبت کا اصلی اور غالب مفہوم ہے ،خواہ ارادے اور توجہ کی صورت میں ہو ۔کسی چیز کے مالک کو اس چیز کا صاحب کہا جاتا ہے ۔یہی حال اس شخص کا ہے جو اس چیز میں تصرف کا مالک ہو۔
لفظ مصاحبت اور لفظ اصطحاب لفظ اجتماع سے زیادہ بلیغ اور رسا ہے کیونکہ ’’مصاحبت‘‘ میں صحبت کی طوالت کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔
بنابریں ہر اصطحاب اجتماع ہے لیکن ہر اجتماع اصطحاب نہیں ہے ۔
(دیکھیے راغب اصفہانی کی :مفردات الفاظ القرآن الکریم ،ص ۲۷۵)
قرآن کریم نے متعدد الفاظ کی صورت میں اس مادے کے جن مشتقات کو استعمال کیا ہے ان سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے جو لغت کی کتابوں میں مذکور ہے ۔ان سارے الفاظ کا مفہوم تقریبا ً یکساں ہے جو اس باہمی معاشرت ،میل جول اور مل ملاپ سے عبارت ہے جو لوگوں کے باہم اِکھٹا ہونے ،ملنے اور ساتھ رہنے سے حاصل ہوتے ہیں خواہ ان کا اعتقاد یا طرز عمل یکساں ہو یا نہ ہو ۔قرآن کریم نے ان الفاظ کو باہمی معاشرت اور مل جول کے مطلق اور وسیع مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔
قرآن میں مذکور الفاظ :
تصاحبنی ،صاحبهما، صاحبه ،صاحبته ،اصحاب اور اصحابهم
کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اسی مطلق مفہوم میں تکرار کے ساتھ ۹۷ بار استعمال ہوئے ہیں ۔
بنابریں ’’صحبت ‘‘ کے لغوی معنی جسے ارباب لغت نے بیان کیاہے اور قرآن کریم میں ذکر شدہ معنی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
ادھر سنت نبوی نے ہر اس مسلمان کے لیے صحابی کا لفظ استعمال کیا ہے جسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصاحبت نصیب ہوئی ہو خواہ آنحضرت پر اس کا ایمان حقیقی اور سچا ہو یا ظاہری ۔پس روایات (جن کا ہم عنقریب ذکر کریں گے ) میں صحابی کا لفظ مومن مسلمان اور منافق مسلمان دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
جب حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشہور و معروف منافق عبد اللہ بن ابی ابن ابی سلول کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آنحضرت نے فرمایا :
فکیف یاعمر! اذا تحدث الناس انَّ محمداً یقتل اصحابہ ؟
(دیکھئے:ابن ہشام کی السیرۃ النبویہ ،ج۳،ص ۳۰۳،ابن کثیر کی السیرۃ النبویۃ،ج۳،ص ۲۹۹ اور واحدی کی اسباب النزول ،ص ۴۵۲ )
اے عمر ! اس وقت کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمد تو اپنے ہی اصحاب کو قتل کرتا ہے ؟
اسی طرح جب عبد اللہ بن عبداللہ ابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے والد کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آنحضرت نے فرمایا : ہم اس کے ساتھ نرمی برتیں گے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ رہے ہم اس کے ساتھ اچھی مصاحبت کا مظاہرہ کریں گے ۔
( دیکھئے:ابن ہشام کی السیرۃ النبویہ ،ج۳،ص ۲۔۵نیز ابن کثیر کی السیرۃ النبویۃ،ج۳،ص۳۰۱)
خلاصہ یہ کہ سنت نبوی کی رو سے لفظ صحابی کا مفہوم مطلق اور وسیع ہے جو عبد اللہ بن اُبی ابن اَبی سلول جیسے معروف منافق اور فاسق کو بھی شامل ہے اور ان افراد کو بطریق اولی شامل ہے جن کا نفاق پوشیدہ تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
اِنّ فِیْ اَصْحَابِیْ مُنَافِقِیْنَ
(دیکھئے:احمد بن حنبل کی المسند ،ج۵،ص ۴۰ اور ابن اکثیر کی تفسیر القرآن العظیم ،ج۲،ص ۳۹۹)
(بے شک میرے اصحاب کے درمیان منافقین بھی پائے جاتے ہیں) ۔
سچے اصحاب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے صحابہ وہ ابتدائی مسلمان ہیں جنہوں نے آنحضرت کو دیکھا اور آپ کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا نیز اسلام کی دعوت اور اس کی نشرو اشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور مشکلات برداشت کیں ۔ان میں سے ایک جماعت نے عقیدہ رسالت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی خاطر جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کیا ،
یہاں تک کہ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا ۔اگر ان کی تلواروں کی چمک دمک، ان کے بازوؤں کی قوت اور ان کے صبر کی طاقت نہ ہوتیں تو دین کی عمارت کھڑی نہ ہوتی ۔
قرآن کریم اور سنت نبوی میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب و سنت نے سچے صحابہ کی کس قدر تعریف و تمجید اور تکریم کی ہے ۔ارشاد الہی ہے :
’’مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‘‘(فتح/۲۹)
ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں ۔آپ انہیں رکوع وسجود میں دیکھتے ہیں ۔وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں ۔سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ۔ جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہوگئی پھر اپنے تنےپر سیدھی کھڑی ہوگئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے ۔ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجالائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کاوعدہ کیا ہے ۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی ،خدا کے دین کو زندہ کیا ،اسلامی حکومت کی بنیادوں کو استوار کیا اور جاہلیت کو موت کی نیند سلادی ۔
قرآن کی بعض آیات نے صحابہ کی زبردست تعریف و تمجید کی ہے ۔جو شخص مہاجرین و انصار اور ان کی بہترین پیروی کرنے والوں کی تعریف میں نازل شدہ آیات کا مطالعہ کرے وہ ان کے بلند مقام و مرتبے کو دیکھ کر رشک کرنے لگتا ہے ۔جو شخص درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرنے والے صحابہ کے بارے میں نازل شدہ آیات کو سنے اس کا دل اس مومن جماعت (جس نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا) کی محبت میں بے قرار ہوکر دھڑکنے لگتا ہے ۔
حقیقی صحابہ کی توصیف امام علی علیہ السلام کی زبانی
آپ علیہ السلام نے فرمایا :
’’وَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ نَقْتُلُ آبَاءَنَا وَ أَبْنَاءَنَا وَإِخْوَانَنَا وَ أَعْمَامَنَا مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وَ تَسْلِيماً وَ مُضِيّاً عَلَى اللَّقَمِ وَ صَبْراً عَلَى مَضَضِ الْأَلَمِ وَ جِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ۔۔۔فَلَمَّا رَأَى اللهُ صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ حَتَّى اسْتَقَرَّ الْإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَهُ وَ مُتَبَوِّأً أَوْطَانَهُ وَ لَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ وَ لَا اخْضَرَّ لِلْإِيمَانِ عُودٌ ‘‘
(نہج البلاغۃ ،صبحی صالح کی تحقیق کے ساتھ ،ص ۹۱۔۹۲)
بہ تحقیق ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رکاب میں اپنے آباء ،اپنے بیٹوں ،اپنے بھائیوں اور اپنے چچوں کے ساتھ جنگ کرتے تھے جس سے ہمارے ایمان،جذبۂ تسلیم، جادۂ حق پر آگے بڑھنے کے جذبے ،تکالیف پر صبر اور دشمنوں کے خلاف جہاد میں دلجمعی میں اضافہ ہی ہوتا تھا ۔پس جب اللہ نے ہمارے اخلاص کو دیکھا تو اس نے ہمارے دشمن پر ذلت نازل کی اور ہمیں اپنی مدد سے نوازا یہاں تک کہ اسلام پابرجا ہوگیا اور اس کی بنیادیں مستحکم ہو گئیں ۔میری جان کی قسم ! اگر ہماری روش تمہاری جیسی ہوتی تو نہ دین کا کوئی ستون پابرجا ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی ٹہنی ہری ہوتی ۔
آپ علیہ السلام نے اصحاب کی توصیف ،ان کے عظیم مرتبے کی یاد دہانی اور ان سے جدائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو دیکھا ہے ۔میں تم میں سے کسی کو ان کا شبیہ نہیں پاتا ۔بےشک وہ بکھرے بالوں اور غبار آلود حالت کے ساتھ دن کا آغاز کرتے تھے جبکہ سجدے اورقیام کی حالت میں رات گزار تے تھے ۔وہ اپنی پیشانیوں اور چہروں کو باری باری زمین پر رکھتے تھےاور اپنی آخرت کی یاد میں اس طرح کھڑے ہوتے تھے جس طرح آگ کے انگارے پر کھڑے ہوں۔
لَقَدْ رَأَيْتُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم فَمَا أَرَى أَحَداً يُشْبِهُهُمْ مِنْكُمْ لَقَدْ كَانُوا يُصْبِحُونَ شُعْثاً غُبْراً وَ قَدْ بَاتُوا سُجَّداً وَ قِيَاماً يُرَاوِحُونَ بَيْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُودِهِمْ وَ يَقِفُونَ عَلَى مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكْرِمَعَادِهِمْ
(نہج البلاغۃ ،صبحی صالح کی تحقیق کے ساتھ ،ص ۹۷۔۱۴۳)
آپ علیہ السلام نے ان کی محبت میں شعلہ ور دل کے ساتھ فرمایا :
کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو حق کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے چلے گئے؟ کہاں ہے عمار؟ کہاں ہے ابن تیہان ؟ کہاں ہے ذوالشہادتین؟ کہاں ہیں ان کے وہ بھائی جو ان جیسے تھے، جنہوں نے قرآن کی تلاوت اور اس کی تقویت کی ؟
أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَ مَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَ أَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَ أَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَ أَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَلَوُا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوهُ وَ تَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَأَقَامُوهُ أَحْيَوُا السُّنَّةَ وَ أَمَاتُوا الْبِدْعَةَ دُعُوا الی الْجِهَادِ فَأَجَابُوا وَ وَثِقُوا بِالْقَائِدِ فَاتَّبَعُوهُ
(نہج البلاغۃ ،صبحی صالح کی تحقیق کے ساتھ ،ص ۱۸۲۔۲۶۴)
سچے صحابہ کے حق میں امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا
امام زین العابدین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے حق میں دعاکرتے ہوئے فرمایا :
’’اللَّهُمَّ وَأَصْحَابُ مُحَمَّدٍ خَاصَّةً الَّذِينَ أَحْسَنُوا الصُّحَبَةَ وَالَّذِينَ أَبْلَوُا الْبَلَاءَ الْحَسَنَ فِي نَصْرِهِ، وَكَانَفُوهُ وَأَسْرَعُواإِلَى وِفَادَتِهِ وَ سَابَقُوا إِلَى دَعْوَتِهِ، وَ اسْتَجَابُوا لَهُ حَيْثُ أَسْمَعَهُمْ حُجَّةَ رِسَالَاتِهِ وَ فَارَقُوا الْأَزْوَاجَ وَ الْأَوْلَادَ فِي إِظْهَارِ كَلِمَتِهِ وَ قَاتَلُوا الْآبَاءَ وَ الْأَبْنَاءَ فِي تَثْبِيتِ نُبُوَّتِهِ، وَانْتَصَرُوا بِهِ ‘‘
(صحیفہ سجادیہ ،ص۴۳۔۴۵ ۔یہ کتاب امام سجاد علیہ السلام کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔مکتب اہل بیت کے پیروکار دعا کے موقعوں پر اس کتاب کی دعائیں پڑھتے ہیں )
اے اللہ ! خصوصیت سے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے وہ افراد جنہوں نے پوری طرح پیغمبرکا ساتھ دیا اور آپ کی نصرت میں پوری شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جو آپ کی مدد پر کمر بستہ رہے اور جنہوں نے آپ پر ایمان لانے میں جلدی اور آپ کی دعوت کی طرف سبقت کی اور جب پیغمبر نے اپنی رسالت کی دلیلیں ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے لبیک کہی اور آپ کا بول بالا کرنے کے لئے بیوی بچوں کو چھوڑدیا اور امر نبوت کے استحکام کے لئے باپ بیٹوں تک سے جنگیں کیں اورآپ کے وجود کی برکت سے کامیابی حاصل کی ۔
سچے اصحاب کے اوصاف، جناب عبد اللہ بن عباس کی زبانی
ایک دفعہ معاویہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے بعض امور کے بارے میں سوال کیا ۔اس کے بعد ان سے صحابہ کے بارے میں پوچھا تو ابن عباس نے کہا : انہوں نے دین کی تعلیمات کو پابر جا کیا اور مسلمانوں کے لئے مخلصانہ جد و جہد کی یہاں تک کہ دین کے راستے صاف ہوگئے ،اس کے اسباب مضبوط ہوگئے اور اللہ کی نعمتیں ظاہر ہوگئیں ، اس کادین پابر جا ہوگیا اور اس کی نشانیاں واضح ہوگئیں ۔
اللہ نے ان کے ذریعے شرک کو ذلیل وخوار کیا ،شرک کے علمبرداروں کو ختم کیا اور اس کی نشانیوں کو محو کیا ۔یوں اللہ کا قول سب سے سربلند ہوگیا اور کافروں کا قول سب سے نچلا ۔
(مسعودی کی مروج الذہب ،ج۳،ص ۴۲۶،۴۲۵،۶۶)