یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے :
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
تالیف : مرکز تحقیقات علوم اسلامی
ترجمہ : معارف اسلام پبلشرز
پہلا سبق:
(ادب و سنت )
رسول اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب و سنن کو پیش کرنے سے قبل مناسب ہے کہ ادب اور سنت کی حقیقت کے بارے میں گفتگو ہوجائے _
ادب: علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے چند معانی بیان کئے ہیں ، اٹھنے بیٹھنے میں تہذیب اور حسن اخلاق کی رعایت اور پسندیدہ خصال کا اجتماع ادب ہے(۱)
مندرجہ بالا معنی کے پیش نظر در حقیقت ادب ایسا بہترین طریقہ ہے جسے کوئی شخص اپنے معمول کے مطابق اعمال کی انجام دہی میں اس طرح اختیار کرے کہ عقل مندوں کی نظر
میں داد و تحسین کا مستحق قرار پائے ، یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ '' ادب وہ ظرافت عمل اور خوبصورت چال چلن ہے جسکا سرچشمہ لطافت روح اور پاکیزگی طینت ہے '' مندرجہ ذیل دو نکتوں پر غور کرنے سے اسلامی ثقافت میں ادب کا مفہوم بہت واضح ہوجاتاہے_
___________________
۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ ادب)_
پہلا نکتہ :
عمل اسوقت ظریف اور بہترین قرار پاتاہے جب شریعت سے اس کی اجازت ہو اور حرمت کے عنوان سے اس سے منع نہ کیا گیا ہو_
لہذا ظلم ، جھوٹ، خیانت ، بر ے اور ناپسندیدہ کام کیلئے لفظ ادب کا استعمال نہیں ہو سکتا دوسری بات یہ ہے کہ عمل اختیاری ہو یعنی اسکو کئی صورتوں میں اپنے اختیار سے انجام دینا ممکن ہو پھر انسان اسے اسی طرح انجام دے کہ مصداق ادب بن جائے
_(۱)
دوسرا نکتہ :
حسن کے اس معنی میں کہ عمل زندگی کی آبرو کے مطابق ہو، کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس معنی کے اپنے حقائق سے مطابقت میں بڑے معاشروں مثلاً مختلف اقوام ، ملل ، ادیان اور مذاہب کی نظر میں اسی طرح چھوٹے معاشروں جیسے خاندانوں کی نظر میں بہت ہی مختلف ہے _چونکہ نیک کام کو اچھے کام سے جدا کرنے کے سلسلہ میں لوگوں میں مختلف نظریات ہیں مثلاً بہت سی چیزیں جو ایک قوم کے درمیان آداب میں سے شمار کی جاتی ہیں، جبکہ دوسری اقوام کے نزدیک ان کو ادب نہیں کہا جاتا اور بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک قوم کی نظر میں پسندیدہ ہیں لیکن دوسری قوموں کی نظر میں برے ہیں( ۲ )
___________________
۱)(المیزان جلد ۲ ص ۱۰۵)_
۲)(المیزان جلد ۲ ص ۱۰۵)_
اس دوسرے نکتہ کو نگاہ میں رکھنے کی بعد آداب رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ آپ کی تربیت خدا نے کی ہے اور خدا ہی نے آپ کو ادب کی دولت سے نوازا ہے نیز آپ کے آداب ، زندگی کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں اور حسن کے واقعی اور حقیقی مصداق ہیں _
امام جعفر صادق عليهالسلام نے فرمایا:
''ان الله عزوجل ادب نبیه صلىاللهعليهوآلهوسلم علی محبته فقال : انک لعلی خلق عظیم''
خدا نے اپنی محبت و عنایت سے اپنے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تربیت کی ہے اس کے بعد فرمایاہے کہ: آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خلق عظیم پر فائز ہیں(۱)
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جو آداب بطور یادگار موجود ہیں ان کی رعایت کرنا در حقیقت خدا کے بتائے ہوئے راستے '' صراط مستقیم '' کو طے کرنا اور کاءنات کی سنت جاریہ اور قوانین سے ہم آہنگی ہے_
___________________
۱)( اصول کافی جلد ۲ ص ۲ ترجمہ سید جواد مصطفوی)_
ادب اور اخلاق میں فرق
باوجودی کہ بادی النظر میں دونوں لفظوں کے معنی میں فرق نظر نہیں آتاہے لیکن تحقیق کے اعتبار سے ادب اور اخلاق کے معنی میں فرق ہے _
علامہ طباطبائی ان دونوں لفظوں کے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہر معاشرہ کے آداب و رسوم اس معاشرہ کے افکار اور اخلاقی خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اس لئے کہ معاشرتی آداب کا سرچشمہ مقاصد ہیں اور مقاصد اجتماعی، فطری اور تاریخی عوامل سے وجود میں آتے ہیں ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ آداب و اخلاق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اسلئے کہ روح کے راسخ ملکہ کا نام اخلاق ہے در حقیقت روح کے اوصاف کا نام اخلاق ہے لیکن ادب وہ بہترین اور حسین صورتیں ہیں کہ جس سے انسان کے انجام پانے والے اعمال متصف ہوتے ہیں(۱)
ادب اور اخلاق کے درمیان اس فرق پر غور کرنے کے بعد کہا جاسکتاہے کہ خلق میں اچھی اور بری صفت ہوتی ہے لیکن ادب میں فعل و عمل کی خوبی کی علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ اخلاق اچھا یا برا ہوسکتاہے لیکن ادب اچھا یا برا نہیں ہوسکتا_
___________________
۱)المیزان جلد ۱۲ ص ۱۰۶_
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ادب کی خصوصیت
روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جن آداب سے کام لیاہے ان سے آپ نے اعمال کو خوبصورت و لطیف اور خوشنما بنادیا اور ان کو اخلاقی قدر وقیمت بخش دی _
آپ کی سیرت کا یہ حسن و زیبائی آپ کی روح لطیف ، قلب ناز ک ا۵ور طبع ظریف کی دین تھی جن کو بیان کرنے سے ذوق سلیم اورحسن پرست روح کو نشاط حاصل ہوتی ہے اور اس بیان کو سن کر طبع عالی کو مزید بلندی ملتی ہے _ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت کے مجموعہ میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں _
الف: حسن وزیبائی ب: نرمی و لطافت ج: وقار و متانت
ان آداب اور پسندیدہ اوصاف کے سبب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جاہل عرب کی بدخوئی ، سخت کلامی و بدزبانی اور سنگدلی کو نرمی ، حسن اور عطوفت و مہربانی میں بدل دیا، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کے دل میں برادری کا بیچ بویا اور امت مسلمہ کے درمیان آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اتحاد کی داغ بیل ڈالی_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب
اپنے مدمقابل کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا جو سلوک تھا اس کے اعتبار سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں _
۱_ خداوند عالم کے روبرو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب
۲_ لوگوں کے ساتھ معاشرت کے آداب
۳ _ انفرادی اور ذاتی آداب
انہیں سے ہر ایک کی مختلف قسمیں ہیں جن کو آئندہ بیان کیا جائے گا _
خدا کے حضور میں
بارگاہ خداوندی میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعائیں بڑے ہی مخصوص آداب کے ساتھ ہوتی تھیں یہ دعائیں خدا سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عمیق ربط کا پتہ دیتی ہیں_
وقت نماز
نماز آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی آنکھوں کا نور تھی ،آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز کو بہت عزیز رکھتے تھے چنانچہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے ، بہت زیادہ نمازیں پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مکمل طور پر خدا کے سامنے محسوس کرتے تھے_
نماز کے وقت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اہتمام کے متعلق آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ایک زوجہ کا بیان ہے کہ ''رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم ہم سے باتیں کرتے اور ہم ان سے محو گفتگو ہوتے ، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ایسی حالت ہوجاتی تھی گویا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نہ ہم کو پہچان رہے ہیں اور نہ ہم
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پہچان رہے ہیں(۱)
منقول ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پورے ا شتیاق کے ساتھ نماز کے وقت کا انتظار کرتے اور اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مؤذن سے فرماتے ''اے بلال مجھے اذان نماز کے ذریعہ شاد کردو''(۲)
امام جعفر صاد ق عليهالسلام سے روایت ہے '' نماز مغرب کے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی بھی کام کو نماز پر مقدم نہیں کرتے تھے اوراول وقت ، نماز مغرب ادا کرتے تھے(۳) منقول ہے کہ ''رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز واجب سے دو گنا زیادہ مستحب نمازیں پڑھا کرتے تھے اور واجب روزے سے دوگنے مستحب روزے رکھتے تھے_(۴)
روحانی عروج میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ایسا حضور قلب حاصل تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، منقول ہے کہ جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بڑی دردناک آواز سنی جاتی تھی(۵)
___________________
۱) سنن النبی ص ۲۵۱_
۲) سنن النبی ص ۲۶۸_
۳) سنن النبی ص_
۴) سنن النبی ص ۲۳۴_
۵) سنن النبی ص۲۵۱_
جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز زپڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہوا ہے(۱) حضرت امام جعفر صادق عليهالسلام نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نماز شب کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایاہے :
''رات کو جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سونا چاہتے تھے تو ، ایک برتن میں اپنے سرہانے پانی رکھ دیتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مسواک بھی بستر کے نیچے رکھ کر سوتے تھے،آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اتنا سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا، جب بیدار ہوتے تو بیٹھ جاتے اور آسمان کی طرف نظر کرکے سورہ آل عمران کی آیات ( ان فی خلق السموات والارض الخ ) پڑھتے اس کے بعد مسواک کرتے ، وضو فرماتے اور مقام نماز پر پہونچ کر نماز شب میں سے چار رکعت نماز ادا کرتے، ہر رکعت میں قراءت کے بقدر ، رکوع اور رکوع کے بقدر ، سجدہ فرماتے تھے اس قدر رکوع طولانی کرتے کہ کہا جاتا کہ کب رکوع کو تمام کریں گے اور سجدہ میں جائیں گے اسی طرح انکا سجدہ اتنا طویل ہوتا کہ کہا جاتا کب سر اٹھائیں گے اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پھر بستر پر تشریف لے جاتے اوراتنا ہی سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا_اس کے بعد پھر بیدار ہوتے اور بیٹھ جاتے ، نگاہیں اسمان کی طرف اٹھاکر انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے پھر مسواک کرتے ، وضو فرماتے ، مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز شب میں سے پھر چار رکعت نماز پڑھتے یہ نماز بھی اسی انداز سے ادا ہوتی جس انداز سے اس سے پہلے چار رکعت ادا ہوئی تھی ، پھر
___________________
۱) سنن النبی ص ۲۶۸_
تھوڑی دیر سونے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف نگاہ کرکے انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے ، مسواک اور وضو سے فارغ ہوکر تین رکعت نماز شفع و وتر اور دو رکعت نماز نافلہ صبح پڑھتے پھر نماز صبح ادا کرنے کیلئے مسجد میں تشریف لے جاتے''(۱)
آنحضرت نے ابوذر سے ایک گفتگو کے ذیل میں نماز کی اس کوشش اور ادائیگی کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:'' اے ابوذر میری آنکھوں کا نور خدا نے نماز میں رکھاہے اوراس نے جس طرح کھانے کو بھوکے کیلئے اور پانی کو پیاسے کیلئے محبوب قرار دیا ہے اسی طرح نماز کو میرے لئے محبوب قرار دیا ہے، بھوکا کھانا کھانے کے بعد سیر اور پیاساپانی پینے کے بعد سیراب ہوجاتاہے لیکن میں نماز پڑھنے سے سیراب نہیں ہوتا''(۲)
دعا کے وقت تسبیح و تقدیس
آپ کے شب و روز کا زیادہ تر حصہ دعا و مناجات میں گذرجاتا تھا آپ سے بہت ساری دعائیں نقل ہوئی ہیں آپ کی دعائیں خداوند عالم کی تسبیح و تقدیس سے مزین ہیں ، آپ نے توحید کا سبق، معارف الہی کی گہرائی، خود شناسی اور خودسازی کے تعمیری اور تخلیقی
___________________
۱) سنن النبی ص ۲۴۱_
۲)سنن النبی ص ۲۶۹_
علوم ان دعاؤں میں بیان فرمادیئے ہیں ان دعاؤں میں سے ایک دعا وہ بھی ہے کہ جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تھا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پڑھا کرتے تھے:
(سبحانک اللهم ما احسن ما تبتلینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعطینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعافینا اللهم اوسع علینا و علی فقراء المومنین )(۱)
خدایا تو منزہ ہے تو کتنی اچھی طرح ہم کو آزماتاہے، خدایا تو پاکیزہ ہے تو ہم پر کتنی زیادہ بخشش کرتاہے، خدا یا تو پاکیزہ ہے تو ہم سے کس قدر درگذر کرتاہے، پالنے والے ہم کو اور حاجتمند مؤمنین کو فراخی عطا فرما_
بارگاہ الہی میں تضرع اور نیازمندی کا اظہار
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کی عظمت و جلالت سے واقف تھے لہذا جب تک دعا کرتے رہتے تھے اسوقت تک اپنے اوپر تضرع اور نیازمندی کی حالت طاری رکھتے تھے، سیدالشہداء امام حسین عليهالسلام رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا کے آداب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
''کان رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم یرفع یدیه اذ ابتهل و دعا کما یستطعم المسکین '' (۲)
___________________
۱) اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۰۶_
۲)سنن النبی ص ۳۱۵_
رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم بارگاہ خدا میں تضرع اور دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اس طرح بلند کرتے تھے جیسے کوئی نادار کھانا مانگ رہاہو_
لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت
رسول اکر م صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نمایاں خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربیت الہی سے مالامال تھے اس بناپر معاشرت ، نشست و برخاست میں لوگوں کےساتھ ایسے ادب سے پیش آتے تھے کہ سخت مخالف کو بھی شرمندہ کردیتے تھے اور نصیحت حاصل کرنے والے مؤمنین کی فضیلت میں اضافہ ہوجاتا تھا_
آپ کی معاشرت کے آداب، اخلاق کی کتابوں میں تفصیلی طور پر مرقوم ہیں _ہم اس مختصر وقت میں چند آداب کو بیان کررہے ہیں امید ہے کہ ہمارے لئے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ا دب سے آراستہ ہونے کا باعث ہو:
گفتگو
بات کرتے وقت کشادہ روئی اور مہربانی کو ظاہر کرنے والا تبسم آپ کے کلام کو شیریں اور دل نشیں بنادیتا تھا روایت میں ہے کہ :
''کان رسول الله اذا حدث بحدیث تبسم فی حدیثه'' (۱)
بات کرتے وقت رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم تبسم فرماتے تھے_
ظاہر ہے کہ کشادہ روئی سے باتیں کرنے سے ہر ایک کو اس بات کا موقع ملتا تھا کہ وہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے گفتگو کرے، اپنے ضمیر کی آواز کو کھل کر بیان کرے اور اپنی حاجت و دل کی بات آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے پیش کرے_
سامنے والے کی بات کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کبھی منقطع نہیں کرتے تھے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے گفتگو کا آغاز کرے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پہلے ہی اسکو خاموش کردیں(۲)
مزاح
مؤمنین کا دل خوش کرنے کیلئے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کبھی مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن تحقیر و تمسخر آمیز، ناحق اور ناپسندیدہ بات آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کلام میں نظر نہیں آتی تھی_
''عن الصادق عليهالسلام قال ما من مؤمن الا وفیه دعابة و کان رسول الله یدعب و لا یقول الاحقا'' (۳)
___________________
۱) سنن النبی ص۴۸ بحار ج۶ ص ۲۹۸_
۲)مکارم الاخلاق ص ۲۳_
۳)سنن النبی ص ۴۹_
امام صادق عليهالسلام سے نقل ہوا ہے کہ : کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس میں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مزاح فرماتے تھے اور حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے_
آپ کے مزاح کے کچھ نمونے یہاں نقل کئے جاتے ہیں :
''قال صلىاللهعليهوآلهوسلم لاحد لا تنس یا ذالاذنین '' (۱)
پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ایک شخص سے فرمایا: اے دو کان والے فراموش نہ کر_
انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمادیں کہ میں بھی جتنی ہوجاؤں حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی'' وہ عورت رونے لگی آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم مسکرائے اور فرمایا کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا ;
( انا انشأناهن انشاءً فجعلنا هن ابکاراً ) (۲)
ہم نے بہشتی عورتوں کو پیدا کیا اور ان کو باکرہ قرار دیا _
کلام کی تکرار
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی گفتگو کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بات کو اچھی طرح سمجھا دیتے تھے_
___________________
۱)بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴_
۲)سورہ واقعہ آیت ۳۵ و ۳۶_
ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کوئی بات کہتے یا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کوئی سوال ہوتا تھا تو تین مرتبہ تکرار فرماتے یہاں تک کہ سوال کرنے والا بخوبی سمجھ جائے اور دوسرے افرادآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے قول کی طرف متوجہ ہوجائیں _
انس و محبت
پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھی ان کی نشستوں میں شرکت کرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ان نشستوں میں مخصوص ادب کی رعایت فرماتے تھے_
حضرت امیر المؤمنین آپ کی شیرین بزم کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں '' : ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ پیغمبر خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی کے سامنے اپنا پاؤں پھیلاتے ہوں''(۱)
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بزم کے بارے میں آپ کے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں '' جب ہم لوگ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آتے تھے تو داءرہ کی صورت میں بیٹھتے تھے''(۲)
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر بیان کرتے ہیں '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھتے تھے تو کسی انجانے آدمی کو یہ نہیں معلوم ہوسکتا تھا کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کون ہیں آخر
___________________
۱) مکارم الاخلاق ص ۲۲_
۲) سنن النبی ص ۷۰_
کا ر اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم سے یہ درخواست کی کہ آپ ایسی جگہ بیٹھیں کہ اگر کوئی اجنبی آدمی آجائے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پہچان لے ، اسکے بعد ہم لوگوں نے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس چبوترہ پر تشریف فرماہو تے تھے اور ہم لوگ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس بیٹھتے تھے_(۱)
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں: رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ موجود رہتا تھا حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے لباس اور زینت والی چیزوں کو جسم سے جدا نہیں کرتے تھے(۲)
مجموعہ ورام میں روایت کی گئی ہے '' پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کے مجمع میں بات کرو تو ان میں سے ایک ہی فرد کو متوجہ نہ کرو بلکہ سارے افراد پر نظر رکھو(۳)
___________________
۱) سنن النبی ص۶۳_
۲)سنن النبی ص۴۸_
۳)سنن النبی ص۴۷_
خلاصہ درس
۱)علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے جو معنی بیان کئے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ در حقیقت ظرافت عمل اور ایسے نیک چال چلن کا نام ادب ہے کہ جس کا سرچشمہ لطافت روح اور طینت کی پاکیزگی ہے _
۲) آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ادب کی قدر و قیمت اس عنوان سے ہے کہ آپ خدا کی بارگاہ کے تربیت یافتہ اور اس کے سکھائے ہوئے ادب سے آراستہ و پیراستہ تھے_
۳) اخلاق و آداب ، میں فرق یہ ہے کہ اخلاق میں اچھائی اور برائی دونوں ہوتی ہیں مگر ادب میں حسن عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا_
۴) رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں جن طریقوں اور آداب کو اپنایا، وہ ایسے تھے کہ جنہوں نے اعمال کو خوبصورتی لطافت اور حسن عطا کیا اور انہیں اخلاقی قدروں کا حامل بنادیا_
۵) رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں :
الف:حسن و زیبائی ب: نرمی اور لطافت ج: وقار و متانت
۶ ) مدمقابل کے سامنے جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب تھے ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:
۱_ خدا کے بالمقابل آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب
۲_ لوگوں کی ساتھ معاشرت کے آداب
۳_فردی اور ذاتی آداب
سوالات :
۱ _ ادب کے معنی لکھئے؟
۲_ ادب اور اخلاق کا فرق تحریر کیجئے؟
۳ _ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب کے کتنے حصے ہیں؟
۴ _ نماز کے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب کا اجمالی طور پر جاءزہ لیجئے_
۵ _لوگوں سے معاشرت کے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کیا آداب تھے؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے_
دوسرا سبق:
(لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا برتاؤ)
رسول اکرم کے برتاؤ میں گرمجوشی کشش اور متانت موجودہ تھی چھوٹے،بڑے فقیر اور غنی ہر ایک سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ملنے جلنے میں وہ ادب نظر آتاہے جو آپ کی عظمت اور وسیع النظری کو اجاگر کرتاہے_
سلام
چھوٹے بڑے ہر ایک سے ملنے کا آغاز آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سلام سے کرتے اور سبقت فرماتے تھے _
قرآن کریم نے سلام کے جواب کے لئے جو آداب بیان کئے ہیں ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ سلام کا اچھے انداز سے جواب دیا جائے ارشاد ہے :
( و اذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منها او ردوها ) (۱)
اور جب کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں بہتر طریقہ سے سلام کرو یا وہی لفظ جواب میں کہہ دو_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم دوسروں کے جواب میں اس قرآنی ادب کی ایک خاص قسم کی ظرافت سے رعایت فرماتے تھے_
جناب سلمان فارسی سے منقول ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جواب دیا وعلیک و رحمة اللہ ، دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ و رحمة اللہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جواب میںفرمایا : و علیک و رحمة اللہ و برکاتہ تیسرا شخص آیا اور اس نے کہا : السلام علیک و رحمة اللہ و برکاتہ آنحضرت نے فرمایا: و علیک اس شخص نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کہا کہ فلاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئے انہوںنے سلام کیا تو آپ نے ان کے جواب میں میرے جواب سے زیادہ کلمات ارشاد فرمائے ؟آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا تم نے ہمارے واسطے کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں ، خداوند نے فرمایا ہے :
___________________
۱)سورہ نساء ۸۶_
( واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منها او ردوها ) (۱)
اور جب کوئی شخص سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں بہتر طریقہ سے سلام کیا کرو یا وہی لفظ جواب میں کہدیا کرو_
مصافحہ
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی یادگار ایک اسلامی طریقہ مصافحہ کرنا بھی ہے _آپ کے مصافحہ کے آداب کو امیر المؤمنین بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کسی سے مصافحہ کیا ہو اور اس شخص سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو''(۲)
امام جعفر صادق نے اس سلسلہ میں فرمایا'' جب لوگوں نے اس بات کو سمجھ لیا تو حضرت سے مصافحہ کرنے میں جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تھے''(۳)
رخصت کے وقت
مؤمنین کو رخصت کرتے وقت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم ان کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے; ان کو خیر و نیکی کے مرکب پر بٹھاتے اور تقوی کا توشہ ان کےساتھ کرتے تھے_
___________________
۱) تفسیر در المنثور ج۲ ص ۱۸۸_
۲) مکارم الاخلاق ص ۲۳_
۳) سنن النبی ص ۴۸_
ایک صحابی کو رخصت کرتے وقت فرمایا:
'' زودک الله التقوی و غفرذنبک و لقاک الخیر حیث کنت ' '(۱)
خداوند عالم خداوندعالم تمہارا توشہ سفر تقوی قرار دے، تمہارے گناہ معاف کردے اور تم جہاں کہیں بھی رہو تم تک خیر پہنچاتارہے_
پکارتے وقت
اصحاب کو پکارنے میں آپکا انداز نہایت محترمانہ ہوتا تھا آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے اصحاب کے احترام اور ان کے قلبی لگاؤ کیلئے ان کو کنیت سے پکارتے تھے اور اگر کسی کی کوئی کنیت نہیںہوتی تھی تو اس کیلئے معین کردیتے تھے پھر تو دوسرے لوگ بھی اسی کنیت سے ان کو پکارنے لگتے تھے اس طرح آپ صاحب اولاد اور بے اولاد عورتوں، یہاں تک کہ بچوں کیلئے کنیت معین فرماتے تھے اور اس طرح سب کا دل موہ لے لیتے تھے(۱) _
پکار کا جواب
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم جس طرح کسی کو پکارنے میں احترام ملحوظ نظر رکھتے تھے ویسے ہی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کسی کی آواز پر لبیک کہنے میں بھی کسر نفسی اور احترام کے جذبات ملے جلے ہوتے تھے_
___________________
۱)مکارم الاخلاق ص ۲۴۹_
۲)سنن النبی ص۵۳_
روایت ہوئی ہے کہ :
''لا یدعوه احد من الصحابه و غیرهم الا قال لبیک'' (۱)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو جب بھی ان کے اصحاب میں سے کسی نے یا کسی غیر نے پکارا تو آپ نے اس کے جواب میں لبیک کہا _
امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرتا تھا اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی اسے انجام دینا چاہتے تھے تو فرماتے تھے کہ '' ہاں'' اور اگر اسکو انجام دینا نہیں چاہتے تھے تو خاموش رہ جاتے تھے اور ہرگز '' نہیں'' زبان پر جاری نہیں کرتے تھے(۲)
ظاہری آرائشے
کچھ لوگ مردوں کا فقط گھر کے باہر اور ناآشنا لوگوں سے ملاقات کرتے وقت آراستہ رہنا ضروری سمجھتے ہیں ان کے برخلاف رسو لخدا صلىاللهعليهوآلهوسلم گھر میں اور گھر کے باہر دونوں جگہ نہایت آراستہ رہتے تھے، نہ صرف اپنے خاندان والوں کیلئے بلکہ اپنے اصحاب کیلئے بھی اپنے کو آراستہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ : خدا اپنے اس بندہ کو دوست رکھتاہے جو اپنے بھائیوں سے ملاقات کیلئے گھر سے نکلتے وقت آمادگی اور آراستگی سے نکلے(۳)
___________________
۱)سنن النبی ص۵۳_
۲)سنن النبی ص ۷۰_
۳)سنن النبی ص۲۲_
مہما نوازی کے کچھ آداب
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم جو کہ عالی مزاج اور آزاد منش تھے وہ اپنے مہمانوں کا نہایت احترام و اکرام کرتے تھے_
منقول ہے کہ '' جب کبھی کوئی آپ کے پاس آتا تھا تو جس تو شک پر آپ تشریف فرماہوتے تھے آنے والے شخص کو دے دیتے تھے اور اگر وہ مہمان اسے قبول نہیں کرتا تو آپ اصرار فرماتے تھے یہاں تک وہ قبول کرلے _(۱)
حضرت موسی بن جعفر عليهالسلام نے فرمایا: '' جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے یہاں کوئی مہمان آتا تھا تو آپ اس کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور جب تک مہمان کھانے سے اپنا ہاتھ روک نہیں لیتا تھا آپ کھانے میں اس کے شریک رہتے تھے _(۲)
عیادت کے آداب
آپ اپنے اصحاب سے صحت و تندرستی ہی کے زمانہ میں ملاقات نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کوئی مؤمن اتفاقاً بیمار پڑجانا تو آپ اسکی عیادت کرتے اور یہ عمل خاص آداب کے ساتھ انجام پاتا_
___________________
۱)سنن النبی ص ۵۳_
۲)سنن النبی ص ۶۷_
عیادت کے آداب سے متعلق آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بیان فرماتے ہیں :
''تمام عیادة المریض ان یضع احدکم یده علیه و یسأله کیف انت؟ کیف اصبحت؟ و کیف امسیت؟ و تمام تحیتکم المصافحه '' (۱)
کمال عیادت مریض یہ ہے کہ تم اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھو اس سے پوچھو کہ تم کیسے ہو؟ رات کیسے گذاری ؟ تمہارا دن کیسے گذرا؟ اور تمہارا مکمل سلام مصافحہ کرنا ہے _
مریض کی عیادت کے وقت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ایک دوسرا طریقہ یہ تھا کہ آپ اس کے لئے دعا فرماتے تھے _ روایت ہے کہ جب سلمان فارسی بیمار ہوئے اور آپ نے ان کی عیادت کی ، تو اٹھتے وقت فرمایا :
''یا سلمان کشف الله ضرک و غفرذنبک و حفظ فی دینک و بدنک الی منتهی اجلک''
اے سلمان اللہ تمہاری پریشانی کو دور کرے تمہارے گناہ کو بخش دے اور موت آنے تک تمہارے دین اور بدن کو صحیح و سالم رکھے(۲)
حاصل کلام
کلی طور پر جاودانی ، شایستگی اور خردمندی پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے برتاؤ کے آداب کی
___________________
۱)مکارم الاخلاق ۳۵۹_
۲)مکارم الاخلاق ص۳۶۱_
خصوصیات میں سے تھیں_آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سلوک کا اثر آپکے زمانہ کے افراد پر ایسا گہرا تھا کہ بہت ہی کم مدت میں ان کی روح و فکر میں عظیم تبدیلی آگئی اور ان کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اخلاق اسلامی کے زیور سے آراستہ کردیا رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت کو نمونہ عمل بنانافقط آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے زمانہ کے افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جب تک دنیا قاءم ہے اور اسلام کا پرچم لہرارہاہے رسول اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم پر ایمان لانیوالوں کو چاہئے کہ آپ کے اخلاق صلىاللهعليهوآلهوسلم آداب اور سیرت کو آئیڈیل بنائیں_
کچھ اپنی ذات کے حوالے سے آداب
انفرادی اعمال کی انجام دہی میں آپکا طریقہ اس حد تک دلپذیر اور پسندیدہ تھا کہ لوگوں کیلئے ہمیشہ کیلئے نمونہ عمل بن گئے، آپ پر ایمان لانے والے آج سنت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سمجھ کر ان اعمال کو بجالاتے ہیںآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی کی تاریخ میں کوئی ایسی چھوٹی سی بات بھی ناپسندیدہ نظر نہیں آتی ، صرف بڑے کاموں میں ہی آپ کی سیرت سبق آموز اور آئیڈیل نہیں ہے بلکہ آپ کی زندگی کے معمولی اور جزئی امور بھی اخلاق کے دقیق اور لطیف ترین درس دیتے نظر آتے ہیں _
اس تحریر میں حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کچھ ذاتی آداب کی طرف اشارہ کیا جارہاہے_ آداب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے متلاشی افراد کیلئے بہتر ہے کہ وہ ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں جو اس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں_(۱)
آرائش
دنیاوی زروزیور کی نسبت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نظافت، صفائی اور پاکیزگی کو خاص اہمیت دیتے تھے اچھی خوشبو استعمال کرتے تھے، بالوں میں کنگھی کرتے تھے اور آپکا لباس ہمیشہ صاف ستھرا اورپاکیزہ رہتا تھا ، گھر سے نکلتے وقت آئینہ دیکھتے ، ہمیشہ با وضو رہتے اورمسواک کرتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے لباس اور نعلین کا ایک رنگ ہوتا تھا جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سر پر عمامہ رکھتے تو اس وقت آپکا قد نمایاں ہوکر آپکے وقار میں اضافہ کردیتا تھا چونکہ اس موضوع پر مفصل گفتگو ہوگی اسلئے یہاں فقط اشارہ پر ہم اکتفا کررہے ہیں_
کھانے کے آداب
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مخصوص آداب سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن کوئی مخصوص غذا نہیں کھاتے تھے_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہر طرح کی غذا نوش فرماتے تھے اور جس کھانے کو خدا نے حلال کیا ہے اسکو اپنے گھروالوں اور خدمتگاروںکے ساتھ کھاتے تھے، اسی طرح اگر کوئی شخص آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعوت
___________________
۱) (سنن النبی علامہ طباطبائی ، مکارم الاخلاق طبرسی، بحارالانوار مجلسی و ...)_
کرتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم زمین یا فرش پر بیٹھ جاتے اور جو کچھ پکاہوتا تھاتناول فرمالیتے تھے _
لیکن جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے یہاں کوئی مہمان آجاتا تو آپ اس کے ساتھ غذا تناول فرماتے اور اس غذا کو بہترین تصور فرماتے تھے جس میںآپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ زیادہ لوگ شریک ہوتے تھے_(۱)
کسی کھانے کی مذمت نہیں کرتے تھے ، پسند آتا تو کھالیتے اوراگر ناپسند ہوتا تو نہیں کھاتے تھے لیکن اسے دوسروں کیلئے حرام نہیں کرتے تھے _(۲)
کم خوری
دن بھر کی انتھک محنت اور ہمیشہ نماز شب کی ادائیگی کے باوجود کم غذا تناول فرماتے اور پرخوری سے پرہیز کرتے تھے_
امام جعفر صادق عليهالسلام نے فرمایا : '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے نزدیک اس سے زیادہ اور کوئی چیز محبوب نہ تھی کہ ہمیشہ بھوک رہے اور خوف خدادل میں رکھا جائے(۳) کم خوری کی بناپر آپکا جسم لاغر اور اعضاء کمزور ہے _
___________________
۱) مکارم الاخلاق ص ۲۶_
۲) سنن النبی ص ۱۷۷_
۳) مکارم الاخلاق ص ۱۶۰_
امیر المؤمنین علی بن ابی طالب عليهالسلام فرماتے تھے:'' ساری دنیا سے شکم کے اعتبار سے آپ سب سے زیادہ لاغر اور کھانے کے اعتبار سے آپ سب سے زیادہ بھوک میں رہتے تھے بھوکے شکم کے ساتھ آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور منزل آخرت میںصحیح و سالم پہنچے''(۱) _
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے زیادہ کھانا کھاکر شکم پر کیا ہو(۲) چنانچہ کم خوری کے بارے میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود ارشاد فرماتے تھے : '' ہم وہ ہیں کہ جو بھوک کے بغیر کھانا نہیں کھاتا اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے ''(۳) کم خوری کی وجہ سے آپکا جسم صحیح و سالم تھا اور اسکی بنیاد مضبوط تھی_
آداب نشست
حضور نبی اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کے مخلص بندے تھے حق تعالی کی بندگی کی رعایت ہر حال میں کرتے تھے _ امام محمد باقر عليهالسلام سے روایت ہے : '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم غلاموں کی طرح کھانا کھاتے تھے غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھتے اور زمین ہی پر سوتے تھے''_(۴)
___________________
۱) نہج البلاغہ ص ۱۵۹_
۲) سنن النبی ص۱۸۲_
۳) سنن النبی ص ۱۸۱_
۴) سنن النبی ص ۱۶۳_
امیر المؤمنین عليهالسلام فرماتے ہیں : رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب دسترخوان پر بیٹھتے تو غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اور بائیں ران پر تکیہ کرتے تھے''(۱)
ہاتھ سے غذا کھانا
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کھانے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کھانا ہاتھ سے کھاتے تھے_ امام جعفر صادق عليهالسلام سے روایت ہے : '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم غلاموں کی طرح بیٹھتے' ہاتھوں کو زمین پر رکھتے اور تین انگلیوں سے غذا نوش فرماتے تھے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے آپ عليهالسلام نے فرمایا: یہ تھا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کھانا کھانے کا انداز اس طرح نہیں کھاتے تھے جیسے اہل نخوت کھانا کھاتے ہیں _(۲)
امام جعفر صادق عليهالسلام اپنے والد امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں : '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی انگلیوں کو چوستے تھے _(۳)
کھانا کھانے کی مدت
تھوڑی سی غذا پر قناعت فرمانے کے باوجودجو افراد آپ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے
___________________
۱) سنن النبی ص ۱۶۴_
۲) سنن النبی ص ۱۴۵_
۳) سنن النبی ص ۱۶۵_
آپ شروع سے آخر تک انکا ساتھ دیتے تھے تا کہ وہ لوگ آپ کی خاطر کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں اور بھوکے ہی رہ جائیں_
صادق آل محمد عليهالسلام فرماتے ہیں: رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب لوگوں کےساتھ کھانا کھانے کیلئے بیٹھتے تو سب سے پہلے شروع کرتے اور سارے لوگوں کے بعد کھانے سے ہاتھ روکتے تا کہ لوگ کھانے سے فارغ ہوجائیں _(۱)
ہر لقمہ کے ساتھ حمد خدا
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم چونکہ کسی بھی لمحہ یاد خدا سے غافل نہیں رہتے تھے اسلئے کھانا کھاتے وقت بھی خدا کا شکر ادا کرتے رہتے تھے_
منقول ہے کہ '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم ہر دو لقمہ کے درمیان حمد خدا کیا کرتے تھے''(۲)
پانی پینے کا انداز
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پانی پینے وقت بھی ایک خاص ادب کا خیال رکھتے تھے روایت میں ہے کہ '' جب پانی پیتے تو بسم اللہ کہتے پانی کو چوس کر پیتے اور ایک سانس میں نہیں پیتے
___________________
۱)سنن النبی ص ۱۶۴_
۲)سنن النبی ص ۱۶۸_
تھے ، فرماتے تھے کہ ایک سانس میں پانی پینے سے تلی میں درد پیدا ہوتاہے(۱) روایت میں یہ بھی ہے ''آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پانی پیتے وقت پانی کے برتن ہی میں سانس نہیں لیتے تھے بلکہ سانس لینا چاہتے تو برتن کو منہ سے الگ کرلیتے تھے''(۲)
سفر کے آداب
جنگ اور جنگ کے علاوہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دونوں سفر مخصوص آداب کے ساتھ انجام پاتے تھے اور آپ تمام ضروری باتوں کا خیال رکھتے تھے_
زاد راہ
سفر کے موقع پر آپ ضروری سامان اپنے ساتھ لے لیتے تھے، زاد راہ سفر لینے کے بارے میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے ہیں : یہ سنت ہے کہ جب کوئی سفر کیلئے نکلے تو اپنا خرچ اور اپنی غذا اپنے ساتھ رکھے اسلئے کہ یہ عمل پاکیزگی نفس اور اخلاق کے اچھے ہونے کا باعث ہے_
___________________
۱)سنن النبی ص ۱۶۹_
۲)سنن النبی ص ۱۷۰_
ذاتی ضروریات کے سامان
زاد راہ کے علاوہ آپ اپنی ذاتی ضروریات کا سامان بھی اپنے ساتھ لے لیتے تھے_ روایت ہے کہ ''آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سفر میں چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ چند چیزیں یہ ہیں آئینہ ،جسم پر ملنے والا تیل ، سرمہ دانی، قینچی مسواک اور کنگھی _
دوسری حدیث میں ہے سوئی اور دھاگہ نعلین سینے والی سوئی اور پیوند لگانے کی چیزیں بھی آپ اپنے ساتھ رکھتے تا کہ لباس کو اپنے ہاتھوں سے سی لیں اور جوتے میں پیوند لگالیں''_(۱)
''آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سفر کے آداب میں ایک دوسری چیز کا بھی ذکر آیاہے اور وہ یہ کہ آپ جس راستے سے جاتے تھے اس راستے سے واپس نہیںآتے تھے بلکہ دوسرا راستہ اختیار کرتے تھے''(۲)
'' قدم تیز اٹھاتے اور راستہ جلد طے کرتے اور جب وسیع و عریض بیابان میں پہنچتے تو اپنی رفتار مزید تیز کردیتے تھے''(۳)
آپ ہمیشہ سفر سے ظہر کے وقت واپس پلٹتے،(۴) جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سفر سے
___________________
۱) مکارم الاخلاق ص ۶۳_
۲) سنن النبی ص ۱۱۰_
۳) سنن النبی ۴ ص ۱۱۴_
۴) سنن النبی ص ۱۱۷_
واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے دو رکعت نماز پڑھتے اس کے بعد گھر تشریف لے جاتے تھے(۱)
سونے کے آداب
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کے حکم کے مطابق راتوں کو بیدار اور دعاو عبادت میں مصروف رہتے تھے، فقط تھوڑی دید سوتے وہ بھی مخصوص آداب کے ساتھ_
امام محمد باقر عليهالسلام فرماتے ہیں : '' رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب بھی خواب سے بیدار ہوتے تو اسی وقت زمین پر خدا کا سجدہ بجالاتے تھے''(۲)
بیچے بچھانے کیلئے ایک عبا اور ایک کھال کا تکیہ تھا کہ جس میں خرمہ کی چھال بھری ہوئی تھی _ ایک رات اسی بستر کو دہرا کرکے لوگوں نے بچھادیا جب آپ صبح کو بیدار ہوئے تو فرمایا کہ یہ بستر نماز شب سے روکتا ہے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اس کو اکہرا بچھایا جائے _
___________________
۱) سنن النبی ص ۱۱۹_
۲)سنن النبی ص ۱۴۰
(۳) سنن النبی ص ۱۵۴_
خلاصہ درس
۱ ) پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم انتہائی پرکشش، قاطع اور بھر پور متانت کے حامل تھے انکا وہ ادب جو کہ انکے بزرگ منش ہونے اور وسعت نظر رکھنے کی عکاسی کرتا تھا ہر چھوٹے ، بڑے، فقیر اور غنی اور تمام لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں نظر آتاہے_
الف: آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سلام کرنے میں پہل کیا کرتے تھے_
ب: مصافحہ کرنے والے سے پہلے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے_
ج: اپنے اصحاب کو نہایت محترمانہ انداز میں پکارتے تھے_
د: ہر ایک کی پکار کا نہایت ہی احترام و ادب سے جواب دیتے تھے_
ھ :اپنے مہمانوں کیلئے آپ نہایت ادب و احترام کا مظاہرہ فرماتے تھے_
۲ ) رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت کا ان کے زمانہ کے افراد پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ان کی روح میں عظیم تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس سیرت نے ان کو زیور اسلامی سے آراستہ کردیا_
۳ )ذاتی اعمال میں آپکا انداز ایسا دل پذیرتھا کہ آپ نے ان اعمال کو جاودانی عطا کردی تھی اور آج آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر ایمان لانیوالے ان کو سنت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سمجھ کر بجالاتے ہیں _
۴) رسول اکرم کا سفر چاہے وہ جنگی ہو یا غیر جنگی مخصوص آداب کا حامل ہوتا تھا اور اسمیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ضرورت کی ان تمام چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے جن کی سفر میں ضرورت ہوتی ہے_
سوالات :
۱_ لوگوںسے ملنے جلنے میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کیا سیرت تھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایئے
۲ _ مریض کی عیادت کے سلسلہ میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کیا آداب تھی ؟
۳ _ لوگوں کے درمیان آپ کی سیرت کا کیا اثرتھا؟
۴ _ ذاتی حالات مثلاً اپنے کو آراستہ کرنے، کھانے پینے میں آپ کے کیا آداب تھے؟ ان میں سے کچھ بیان فرمایئے
۵ _ سفر کے وقت آپ کا کیا طریقہ ہوتا تھا ، تحریر فرمایئے
تیسرا سبق:
(پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا طرز معاشرت)
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ملت اسلامیہ کے رہبر اور خدا کا پیغام پہنچانے پر مامور تھے اس لئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مختلف طبقات کے افراداور اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان کو توحید کی طرف مائل کرنے کا سب سے بڑا سبب ان کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا نیک برتاو تھا_
لوگوں کے ساتھ معاشرت اور ملنے جلنے کی کیفیت کے بارے میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں لیکن سب سے زیادہ جو چیز آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی معنوی عظمت کی طرف انسان کی راہنمائی کرتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں نیک اخلاق اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پاکیزہ سیرت ہے _
وہ سیرت جس کا سرچشمہ وحی اور رحمت الہی ہے جو کہ حقیقت تلاش کرنے والے افراد کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے وہ سیرت جو ''اخلاق کے مسلم اخلاقی اصولوں''(۱) کے ایک سلسلہ سے ابھرتی ہے جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی روح میں راسخ تھی اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ساری
___________________
۱)سیرت نبوی، استاد مطہری ۳۴ ، ۲۲_
زندگی میں منظر عام پر آتی رہی_
اس مختصرسی بحث میں جو بیان کیا جائے گا وہ عام لوگوں کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سلوک کی طرف اشارہ ہوگا امید ہے کہ ''لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(۱) تمھارے لئے پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اندر اسوہ حسنہ موجود ہے'' کے مطابق آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کریمانہ اخلاق ہمارے لئے نمونہ بنیں گے _
صاحبان فضیلت کا اکرام
بعثت پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ایک مقصد انسانی فضاءل اور اخلاق کی قدروں کو زندہ کرناہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا:
''انما بعثت لاتمم مکارم اخلاق '' (۲)
یعنی ہماری بعثت کا مقصد انسانی معاشرہ کو معنوی کمالات اور مکارم اخلاق کی بلندی کی طرف لے جاناہے _
اسی وجہ سے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم صاحبان فضیلت سے اگر چہ وہ مسلمان نہ بھی ہوں ، اچھے اخلاق سے ملتے اور ان کی عزت و احترام کرتے تھے'' (یکرم اهل الفضل فی اخلاقهم و یتالف اهل الشرف بالبرلهم )(۳) نیک اخلاق کی بناپر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اہل فضل
___________________
۱) احزاب ،۲۱_
۲) میزان الحکمہ ج۳ ص۱۴۹_
۳) محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۶_
کی عزت کرتے اور اہل شرف کی نیکی کی وجہ سے ان پر مہربانی فرماتے تھے، رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سلوک کے ایسے بہت سارے نمونے تاریخ میں موجود ہیں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
حاتم کی بیٹی
حضرت علی عليهالسلام فرماتے ہیں '' جب قبیلہ طئی کے اسیروں کو لایا گیا تو ان اسیروں میں سے ایک عورت نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے عرض کیا کہ آپ لوگوں سے کہدیں کہ وہ ہم کو پریشان نہ کریں اور ہمارے ساتھ نیک سلوک کریں اسلئے کہ میں اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی ہوں اور میرا باپ وہ ہے جو عہد و پیمان میں وفاداری سے کام لیتاہے اسیروںکو آزاد اور بھوکوں کو سیر کرتاہے سلام میں پہل کرتاہے اور کسی ضرورتمند کو اپنے دروازے سے کبھی واپس نہیں کرتا ہیں '' حاتم طائی'' کی بیٹی ہوں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: یہ صفات جو تم نے بیان کئے ہیں یہ حقیقی مؤمن کی نشانی ہیں اگر تمہارا باپ مسلمان ہو تا تو میں اس کے لئے دعائے رحمت کرتا، پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: اسکو چھوڑ دیا جائے اور کوئی اسکو پریشان نہ کرے اسلئے کہ اسکا باپ وہ شخص تھا جو مکارم الاخلاق کا دلدادہ تھا اور خدا مکارم الاخلاق کو پسند کرتاہے_(۱)
___________________
۱)محجة البیضاء ج۴ ص۱۳۲_
حاتم کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک کا یہ اثر ہوا کہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے بھائی '' عدی بن حاتم'' کو تیار کیا کہ وہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لے آئے، عدی اپنی بہن کے سمجھانے پرپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس پہونچا اور اسلام قبول کرلیا اور پھر صدر اسلام کے نمایاں مسلمانوں، حضرت علی عليهالسلام کے جان نثاروں اور ان کے پیروکاروںمیں شامل ہوگیا(۱)
بافضیلت اسیر
امام جعفر صادق عليهالسلام نے فرمایا کہ :پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ایک کے علاوہ سارے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا اس شخص نے کہا : کہ ان لوگوں میں سے صرف مجھ کو آپ نے کیوں آزاد کردیا ؟پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ : '' مجھ کو جبرئیل نے خدا کی طرف سے خبردی کہ تیرے اندر پانچ خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کو خدا اور رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم دوست رکھتاہے ۱_ اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے بارے میں تیرے اندر بہت زیادہ غیرت ہے ۲_ سخاوت ۳_ حسن اخلاق ۴_ راست گوئی ۵_ شجاعت '' یہ سنتے ہی وہ شخص مسلمان ہوگیا کیسا بہتر اسلام'' _(۲)
___________________
۱) سیرہ ابن ہشام ج۴ ص ۲۲۷_
۲) بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۰۸_
نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا
اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ قومی تعصب اور جاہلی افکار کا شکار تھا، مادی اقدار جیسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قومیت یہ ساری چیزیں برتری کا معیار شمار کی جاتی رہیں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بعثت کی وجہ سے یہ قدریں بدل گئیں اور معنوی فضاءل کے احیاء کا زمانہ آگیا ، قرآن نے متعدد آیتوں میں تقوی، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم کو معیار فضیلت قرار دیا ہے _
( الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله باموالهم و انفسهم اعظم درجة عندالله و اولءک هم الفائزون ) (۱)
جو لوگ ایمان لائے، وطن سے ہجرت کی اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کیا وہ خدا کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی کامیاب ہیں_
( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۲)
تم میں جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے وہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے_
پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم جو کہ انسان ساز مکتب کے مبلغ ہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم امت اسلامی کے اسوہ کے عنوان سے ایسے اخلاقی فضاءل اور معنوی قدر و قیمت رکھنے والوں کی بہت عزت کرتے تھے اور جو لوگ ایمان ، ہجرت اور جہاد میں زیادہ سابقہ رکھتے تھے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے نزدیک وہ مخصوص احترام کے مالک تھے_
___________________
۱) سورہ توبہ ۲۰_
۲) حجرات ۱۳_
رخصت اور استقبال
مشرکین کی ایذاء رسانی کی بناپر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کچھ مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں جب '' جعفر بن ابی طالب'' حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم تھوڑی دور تک ان کے ساتھ ساتھ گئے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دعا فرمائی_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمین سے واپس پلٹے تو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم بارہ قدم تک ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور چونکہ ان کی حبشہ سے واپسی فتح خیبر کے بعد ہوئی تھی اسلئے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: ' ' نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر کیلئے خوشی مناوں یا جعفر کے واپس آجانے کی خوشی مناوں ''(۱)
انصار کی دلجوئی
فتح مکہ کے بعد کفار سے مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی جس کا نام'' حنین'' تھا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تھی پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جنگ حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم کرتے وقت مہاجر و انصار میں سے کچھ لوگوں کو کچھ کم حصہ دیا اور مؤلفة القلوبکوکہ جوا بھی نئے مسلمان تھے زیادہ حصہ دیا ، انصار میں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے چچازاد بھائیوں اور اپنے عزیزوں کو زیادہ چاہتے ہیں اسلئے ان کو زیادہ مال دے رہے ہیں حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے مشرکین کا خون ٹپک رہاہے اور ہمارے ہاتھوں
___________________
۱) مکارم الاخلاق ص ۲۳۹_
سے سخت کام آسان ہورہے ہیں _ ایک روایت کے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنایت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے قباءل عرب اور قریش پرکئے ہیں ، انصار کے اوپر وہ عنایت نہیں ہوئی ہیں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہیں ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، خیمہ لگایا گیا پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' فقط انصار خیمہ میںآئیں، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود علی عليهالسلام کے ساتھ تشریف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' میں تم لوگوں سے کیا سن رہاہوں کیا یہ باتیں تمہارے لئے مناسب ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ باتیں ناتجربہ کار نوجوانوں نے کہی ہیں انصار کے بزرگوں نے یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، پھر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان نعمتوں کو شمار کرایا جو خداوند عالم نے حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے وجود کے سایہ میں ان کو عطا کی تھیں اس پر انصار نے گریہ کیا اور پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہا تھوں اور پیروں کو بوسہ دے کر کہا : ہم آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی اطاعت کو دوست رکھتے ہیں مال کو دوست نہیں رکھتے ہم آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دنیا سے چلے جانے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی جدائی سے ڈرتے ہیں، نہ کہ کم سرمایہ سے،رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت سے ابھی قریش کا فاصلہ کم ہے ، مقتولین کی مصیبت برداشت کئے ہوئے ابھی تھوڑی دن گذرے ہیں میں نے چاہا کہ ان کی مصیبت ختم کردوں اور ان کے دلوں میں ایمان بھردوں اے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بیشک انصار ہمارے راز کے امین ہیں ، اگر تمام لوگ ایک راستے سے جائیں اور انصار دوسرے راستے سے گذریں تو میں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہیں_ اسلئے کہ انصار
ہمارے اندرونی اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہیں اور دوسرے افراد ظاہری لباس کی حیثیت رکھتے ہیں_(۱)
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے انصار کی عزت و تکریم کی اور چونکہ انہوں نے اسلام کیلئے گذشتہ زمانہ میں جد و جہد کی تھی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے راستہ میں فداکاری کا ثبوت دیا تھا اس بناپر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو اپنے سے قریب سمجھا اور اس طرح ان کی دلجوئی کی_
جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال
سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والی جنگ '' موتہ'' میں لشکر بھیجتے وقت رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم لشکر تیار کرلینے کے بعد لشکر کے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر بدرقہ کیلئے مدینہ سے ایک فرسخ تک تشریف لے گئے_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے نماز ظہران کے ساتھ ادا کی اور لشکر کا سپہ سالار معین فرمایا، سپاہیوں کیلئے دعا کی اس کے بعد '' ثنیة الوداع'' نامی جگہ تک جو مکہ کے قریب ہے ان کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے لئے جنگی احکام صادر فرمائے _(۲)
سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علی عليهالسلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح پاکر واپس پلٹے تو اس موقع پر پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مسلمانوں کو فتح
___________________
۱) ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۳۲ ، ۱۳۴_
۲) السیرة الحلی ج۳ ص ۶۸_
کی خبر دی اور مدینہ والوں کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور جاکر ان کا استقبال کیا ، جب علی عليهالسلام نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی گھوڑے سے اتر پڑے علی عليهالسلام کی پیشانی کو بوسہ دیا ان کے چہرہ سے گردو غبار صاف کیا اور فرمایا: الحمدللہ یا علی الذین شد بک ازری و قوی بک ظہری ، اے علی خدا کی حمد ہے کہ اس نے تمہارے ذریعہ سے ہماری کمر مضبوط کی اور تمہارے وسیلہ سے اس نے دشمنوںپر ہمیں قوت بخشی اور مدد کی_(۱)
جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو فتح خیبر کی خبر دی گئی تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علی کے استقبال کو آگے بڑھے ان کو گلے سے لگایا پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا'' خدا تم سے راضی ہے تمہاری کوشش اور جد و جہد کی خبریں ہم تک پہونچیں ، میں بھی تم سے راضی ہوں '' علی عليهالسلام کی آنکھیں بھر آئیںپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' اے علی یہ خوشی کے آنسوں ہیں یا غم کے '' ؟ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کہا خوشی کے اور میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' صرف میں ہی تم سے راضی نہیں ہوں بلکہ خدا، ملاءکہ ،جبرئیل اور میکائیل سب تم سے راضی ہیں_(۲)
___________________
۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۳۵۷)_
۲) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۸۹)_
جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام
مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی وہ ' جنگ بدر '' تھی جن لوگوں نے رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی تھی وہ '' اہل بدر''کے عنوان سے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک خصوصیت کے حامل تھے_
حضرت پیغمبر اعظم صلىاللهعليهوآلهوسلم جمعہ کے دن '' صفہ'' پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کم تھی ( رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مہاجرین و انصار میں سے '' اہل بدر'' کی تکریم کررہے تھے) اسی حال میں اہل بدر میں سے کچھ لوگ منجملہ ان کے ثابت ابن قیس بزم میں وارد ہوئے اور پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے روبرو کھڑے ہوکر فرمایا: السلام علیک ایہا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ آ پ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ثابت نے مسلمانوں کو سلام کیا مسلمانوں نے بھی جواب سلام دیا وہ اسی طرح کھڑے رہے اور رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن ان کو کسی نے جگہ نہیں دی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم پر یہ بات بہت گراں گذری آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مہاجرین و انصار میں سے چند افراد سے کہ جو اہل بدر میں سے نہیں تھے کہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر میں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہی دوسرے افراد کو اٹھاکر اہل بدر'' کو بٹھایا یہ بات ان لوگوں کو بری لگی جن کوپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اٹھایا تھا ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دکھائی دینے لگے ، منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم یہ
تصور کرتے ہو کہ تمہارا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم عدالت سے کام لیتاہے ، اگر ایسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے کیوں نہیں کام لیا ؟ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو اپنی جگہ سے کیوں اٹھا دیا جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے قریب رہیں ؟ اور ان افراد کو ان کی جگہ پر کیوں بٹھا دیا جو بعد میں آئے تھے؟ اس وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی :
( یا ایها الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوایفسح الله لکم و اذا قیل انشزوا فانشزوا ) (۱)
اے اہل ایمان جب تم سے کہا جائے کہ اپنی اپنی مجلس میں ایک دوسرے کیلئے جگہ کشادہ کردو تو خدا کا حکم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا کہ خدا تہارے (مکان و منزلت) میں وسعت دے اور جب یہ کہا جائے کہ اپنی جگہ سے اٹھ جا و تب بھی حکم خدا کی اطاعت کرو(۲)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا اہل بدر کا احترام کرنا اسلامی معاشرہ میں بلند معنوی قدروں کی احیاء اور راہ خدا میں جہاد کے سلسلہ میں پیش قدمی کرنیوالوں کے بلند مقام کا پتہ دیتاہے اسی وجہ سے رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتیاز کے حامل تھے_
___________________
۱) (مجادلہ ۱۱)_
۲) ( بحار ج۱۷ ص ۲۴)_
شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام
سنہ ۸ ھ میں جنگ '' موتہ'' میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری کرتے ہوئے '' جعفر ابن ابی طالب'' نے گھمسان کی جنگ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے اور زخموں سے چور ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کے بلند مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
''ان الله ابدل جعفرابیدیه جناحین یطیر بهما فی الجنة حیث شاء ''
خداوند عالم نے جعفر کو ان کے دونوںبازوں کے بدلے دو پر عنایت کئے ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں ان کے سہارے پرواز کرتے چلے جاتے ہیں _
اسی جنگ کے بعد جب لشکراسلام مدینہ واپس آیا تو رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم مسلمانوں کے ساتھ ان کے استقبال کو تشریف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں کا ایک گروہ بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہمراہ تھا، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مرکب پر سوار چلے جارہے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : بچوں کو بھی سوار کرلو اور جعفر کے بچوں کو مجھے دیدو پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' کو جن کے باپ شہید ہوچکے تھے اپنی سواری پر اپنے آگے بٹھایا_
عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ میں تم کو تعزیت و مبارکباد پیش کرتاہوں کہ تمہارے والد ملاءکہ کے ساتھ آسمان میں پرواز کررہے ہیں _
___________________
۱) (السیرة الحلبیة ج۲ ص ۶۸)_
امام جعفر صادق عليهالسلام نقل کرتے ہیں کہ جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم ان کے بیٹے اور بیوی '' اسماء بنت عمیس'' کے پاس پہونچے، اسماء بیان فرماتی ہیں کہ جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ہمارے گھر میں وارد ہوئے تو اسوقت میں آٹا گوندھ رہی تھی حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے کہاں ہیں؟ میں اپنے تینوں بیٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' کو لے آئی ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور سینہ سے لگایا آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہمارے بچوں کے ساتھ یتیموں کا سا سلوک کیوں کررہے ہیں کیا جعفر شہید ہوگئے ہیں ؟ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے گریہ میں اضافہ ہوگیا ارشاد فرمایا: خدا جعفر پر اپنی رحمت نازل کرے یہ سنتے ہی صدائے نالہ وشیون بلند ہوئی بنت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم '' فاطمہ عليهالسلام '' نے ہمارے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بھی گریہ فرمایا ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم گھر سے باہر نکلے حالت یہ تھی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے آنسووں پر قابو نہیں پارہے تھے اور یہ فرمایا کہ :'' گریہ کرنے والے جعفر پر گریہ کریں''_
اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ارشاد فرمایا: '' جعفر کے اہل و عیال کیلئے کھانا تیار کرو اور ان کے پاس لے جاؤ اسلئے کہ وہ لوگ آہ و فغان میں مشغول سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علی عليهالسلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح
___________________
۱) (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸۹) _
بات سنت قرار پائی خود عبداللہ بن جعفر کے قول کے مطابق '' وہ لوگ تین دن تک پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے گھر مہمان رہے _
ہمارے معاشرہ میں آج جو رواج ہے وہ سنت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے برعکس ہے ہم آج دیکھتے ہیں کہ مصیبت زدہ کنبہ کے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تک عزادار کے گھر مہمان رہتے ہیں ، جبکہ سنت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو زندہ کرنا کرنا ہمارا فریضہ ہے_
ایمان یا دولت
تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پیغمبروں کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور کان دھرنے والے زیادہ تر محروم اور مصیبت زدہ افراد ہی ہوتے تھے دولت مندوں اور مستکبرین نے خدا کے پیغمبروں سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ظاہراً ایمان قبول کرلیا تو اسی برتری کے جذبہ کی بناپر دوسروں سے زیادہ امتیاز کے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب کے رئیسوں کا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ان سے اورفقیر اور محروم مومنین سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے بلکہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم زیادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے کہ ان کے پاس خالص ایمان تھا اور راہ اسلام میں دوسروں سے زیادہ یہ افراد فداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے_
ایک دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں کی ایک جماعت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں حاضر تھی بزرگان قریش اور نئے مسلمان ہونے والوں میں سے چند افراد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ : یا رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کاش ناداورں اور غلاموں کی اس جماعت کو آپ الگ ہی رکھتے یا ان کو اور ہم لوگوں کو ایک ہی نشست میں جگہ نہ دیتے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے جب ہم یہاں سے چلے جاتے تب یہ لوگ آتے ، اس لئے کہ دور و نزدیک کے اشراف عرب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم کو اور ان لوگوں کو ایک ہی نشست میں دیکھیں_
فرشتہ وحی ان کے جواب میں آیت لے کر نازل ہوا :
( و لا تطرد الذین یدعون ربهم بالغداوة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم منشئ و مامن حسابک علیهم من شئ فتطردهم فتکون من الظالمین ) (۱)
جو لوگ صبح و شام خدا کو پکارتے ہیں اور جنکا مقصود خدا ہے ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے کہ نہ تو آپ کے ذمہ ان کا حساب اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں کو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمین میں سے ہوجاؤ گے(۲)
___________________
۱) (انعام ۲۵) _
۲) ( ناسخ التواریخ ج۴ ص ۸۳)_
اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء مؤمنین پر رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی عنایت اور زیادہ ہوگئی _
ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن
سہل بن سعد سے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس سے گذرا حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا کہ وہ شرفاء میں سے ہے کسی شاءستہ انسان کے یہاں یہ پیغام عقد دے تو لوگ اسکو لڑکی دے دیں گے ، اگر کسی کی سفارش کردے تو لوگ اسے قبول کریں گے ، اگر یہ کوئی بات کہے تو لوگ اسکو سنیں گے ، حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد ایک غریب مسلمان کا ادھر سے گذرہوا رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے پوچھا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر یہ لڑکی مانگے تو لوگ اسکو لڑکی نہ دیں ، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اسکی سفارش نہیں سنی جائے، اگر یہ کوئی بات کہے تو اس پر کان نہیں دھرے جائیں گے _پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' یہ اس مالدار شخص اور اسی جیسی بھری ہوئی دنیا سے تنہا بہتر ہے_(۱)
___________________
۱) (پیامبر رحمت صدر بلاغی ص ۶۱)_
خلاصہ درس
۱)امت اسلام کی رہبری اور الہی پیغام پہونچانے کا منصب آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سپرد تھا اس وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مختلف طبقات کے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں کے ساتھ آپکا کردار ساز سلوک توحید کی طرف دعوت کا سبب تھا_
۲)صاحبان فضیلت و کرامت کے ساتھ چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں رسول اکرم اچھے اخلاق اور احترام سے پیش آتے تھے_
۳)جن لوگوں کو اسلام میں سبقت حاصل ہے اوراسلام کی نشرو اشاعت میں جاں نثاری اور کوشش کی ہے رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان لوگوں کا احترام کیا اور ان کو اپنے سے بہت نزدیک جانا_
۴) اسلامی معاشرہ میں معنویت کی اعلی قدروں کے احیاء کیلئے پیش قدمی کرنیوالوں اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں '' اہل بدر'' کے ساتھ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم عزت سے پیش آتے اور ان لوگوں کیلئے خاص امتیاز و احترام کے قاءل رہے_
۵) رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دولت مندوں سے زیادہ غریب مؤمنین پر لطف و عنایت کی اس لئے کہ یہ خالص ایمان کے حامل تھے اور اسلام کی راہ میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جاں نثاری کا ثبوت دیتے تھے_
)مؤلفة القلوب ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کیلئے بھی بولا جاتاہے اور ان کفار کیلئے بھی جن کو اسلام کی طرف بلانا مقصود ہو تا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے _(۱)
___________________
۱)جواہر الکلام ج۱ ص ۳۴۱ طبع_
سوالات :
۱_ مقصد بعثت کے سلسلہ میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا قول پیش کیجئے؟
۲_ پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سلوک اور برتاو کا معاشرہ پر کیا اثر پڑا؟ ایک مثال کے ذریعہ اختصار سے لکھئے؟
۳_مجاہدین '' فی سبیل اللہ '' کے ساتھ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کے دو نمونے پیش کیجئے؟
۴_ شہداء کے گھر والوں کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کیا سلوک کرتے تھے تحریر فرمایئےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کس عمل کو اپنی سنت قرا ردیا ہے ؟
۵_ امیروں کے مقابل غریبوں کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سلوک کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کیجئے_
چوتھا سبق:
(پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مہربانیاں)
محبت اور مہربانی پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے رحم و عطوفت کا داءرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے' یتیم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_
( فبما رحمة من الله لنت لهم ) (۱)
رحمت خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مہربان بنادیا _
گھر والوں سے محبت و مہربانی
جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر
___________________
۱) (آل عمران ۱۵۹/) _
بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر کے اندر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ' دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے' رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے' گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے(۱)
اسی وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا :
''خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (۲) یا 'خیارکم ' خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی'' (۳)
یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_
خدمتکار کے ساتھ مہربانی
اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا محبت آمیز سلوک آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مہربانی کا
___________________
۱) (سنن النبی ص ۷۳)_
۲) (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)_
۳) (محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)_
ایک دوسرا رخ ہے ''انس بن مالک'' کہتے ہیں کہ : '' میںنے دس سال تک حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت کی لیکن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مجھ سے کلمہ '' اف'' تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ' ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعوت کردی ہوگی' یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا' تھوڑی دیر کے بعد رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ' اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا:(۱)
___________________
۱) (منتھی الامال ج ص۱۸ ،مطبوعہ کتابفروشی علمیہ اسلامیہ)_
امام زین العابدین عليهالسلام کا خادم
امام زین العابدین عليهالسلام نے اپنے غلام کو دو مرتبہ آواز دی لیکن اس نے جواب نہیںدیا،تیسری بار امام عليهالسلام نے فرمایا: کیا تم میری آواز نہیں سن رہے ہو؟اس نے کہا کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس نے کہا کہ چوں کہ کوئی خوف نہیں تھا اسلئے میں نے اپنے کو محفوظ سمجھا، امام نے فرمایا: ''خدا کی حمد ہے کہ میرے غلام اور نوکر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں اور اپنے کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے دل میں میری طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے''(۱)
اصحاب سے محبت
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ملت اسلامیہ کے قاءد ہونے کے ناتے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے(۲)
___________________
۱) (بحارالانوار ج۴۶ ص ۵۶)_
۲) (سنن النبی ص ۵۱)_
جابر پر مہربانی
جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوںمیں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر فدا ہوجائیں_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا(۱)
بچوں اور یتیموں پر مہربانی
بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں
___________________
۱) (حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)
کیلئے اور بھی زیادہ موثر ہے جو بہت زیادہ محبت اور عطوفت کے محتاج ہیں اور یہ چیز اندرونی پیچیدگیوں کے سلجھانے کیلئے اور احساس کمتری کو دور کرنے میں بہت مہم اثر رکھتی ہے_
رسول اعظم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی میں رحمت نے اتنی وسعت حاصل کی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی محبت کی گرمی نے تمام افسردہ اور بے مہری کی ٹھنڈک میں ٹھٹھری والوں کو اپنے دامن میں چھپالیا تھا بچوں اور یتیموں سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا سلوک آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی کا درخشان پہلو ہے_
رسول مقبول صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس لوگ بچوں کو لاتے تھے تا کہ آپ ان کے لئے دعا کریں اور انکا نام رکھدیں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم بچے کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کے بچہ گود نجس کردیتا تھا، جو لوگ حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس ہوتے تھے وہ یہ دیکھ کر چلانے لگتے تھے لیکن نبی اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے تھے کہ بچے کو ڈانٹ کر پیشاب کرنے سے نہ روکواسے پیشاب کرنے دو تا کہ وہ پیشاب کرلے جب دعا اور نام رکھنے کا کام ختم ہوجاتا تھا تو بچے کے وارث نہایت خوشی کے ساتھ بچے کو لے لیتے تھے ایسے موقع پر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چہرہ پر کبھی ناراضگی نہیں نظرآتی تھی رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اس کے بعد اپنا لباس پاک کرلیتے تھے_(۱)
___________________
۱) (سنن النبی ص ۵۰)_
امام عليهالسلام یتیموں کے باپ
حبیب ابن ثابت سے منقول ہے کہ کچھ انجیر اور شہد ہمدان و حلوان سے حضرت علی عليهالسلام کیلئے لائے گئے (ہمدان و حلوان میں انجیر کے درخت بہت ہیں اور وہاںکا انجیرمشہوربھی ہے)امیر المؤمنین نے لوگوںسے کہا کہ یتیم بچوں کو بلایا جائے بچے آگئے تو آپ نے ان کو اس بات کی اجازت دی کہ خود بڑھ کر شہد کے مشک سے شہد لیکر کھالیں اور اپنی انگلیوں سے چاٹ لیںلیکن دوسرے افراد کو آپ نے برتن میںرکھ کر اپنے ہاتھوں سے بانٹا، لوگوں نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ نے یتیموں کو کیوں اجازت دے دی کہ وہ اپنی انگلیوں سے مشک میں سے چاٹ لیں اور خود کھائیں؟آپ نے فرمایا: امام یتیموں کا باپ ہوتاہے اسے چاہیئے کہ اپنے بچوںکی طرح ان کو بھی اجازت دے تا کہ وہ احساس یتیمی نہ کریں(۱)
گناہگاروں پر مہربانی
حضرت محمد مصطفی صلىاللهعليهوآلهوسلم باوجودی کہ ایک اہم فریضہ اور رسالت کی بڑی ذمہ داری کے حامل تھے مگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے گنہگاروں کے ساتھ کبھی کسی متکبرانہ جابروں جیسا برتاو نہیں کیا بلکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف و رحمت کا ہی سلوک کیا ، ان کی گمراہی پر ایک شفیق باپ
___________________
۱)(بحارالانوار ج/۴۱ص۱۲۳)_
کی طرح رنجیدہ رہے اور ان کی نجات کیلئے آخری حد تک کوشش کرتے رہے اکثر ایسا ہوتا کہ گناہگارآپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آتے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے تھے لیکن آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کوشش یہی رہتی کہ لوگ اعتراف کرنے سے باز آجائیں تا کہ حضور ان پر حد الہی جاری کرنے کیلئے مجبور نہ ہوں اور انکا کام خدا کی وسیع رحمت کے حوالہ ہو جائے ( صدر بلاغی کی کتاب پیامبر رحمت ص ۵۵ ،۵۱ سے مستفادہ ہے)_
سنہ ۸ ھ میں قبیلہ غامد کی ایک عورت جسکا نام '' سبیعہ '' تھا رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول میں نے زنا کیا ہے آپ مجھ پر حد جاری کریں تا کہ میں پاک ہوجاںآپ نے فرمایا : جاو توبہ کرو اور خدا سے معانی مانگ لو اس نے کہا کہ : کیا آپ مجھ کو '' ماعز ابن مالک'' (ماعز بن مالک وہ شخص تھا جو زنا کے اقرار کیلئے چند مرتبہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اسے ہر دفعہ لوٹا دیا کہ وہ اقرار سے ہاتھ کھینچ لے _(۱) ) کی طرح واپس کردینا چاہتے ہیں ؟ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کیا زنا سے حمل بھی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے آپ نے فرمایا: وضع حمل ہوجانے دو پھر اسکو انصار میں سے ایک شخص کے سپرد کیا تا کہ وہ اسکی سرپرستی کرے جب بچہ پیدا ہوگیا تو حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: تیرے بچہ کو دودھ کو ن پلائیگا؟ تو جا اور جاکر اسے دودھ پلاکچھ مدت کے بعد جب اسکی دودھ بڑھائی ہوگئی تو وہ عورت اس بچہ کو گود میں لئے ہوئے پھر آئی بچہ کے ہاتھ میں
___________________
۱) فروغ کافی ج۷ ص ۱۸۵_
روٹی تھی اس نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے پھر حد جاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بچہ اس سے لیکر ایک مسلمان کے حوالہ کیا اور پھر حکم دیا اسکو سنگسار کردیا جائے ، لوگ ابھی پتھر مارہی رہے تھے کہ خالد ابن ولید نے آگے بڑھ کر اس عورت کے سرپر ایک پتھر مارا پتھر کا لگنا تھا کہ خون اچھل کر خالد کے منہ پر پڑا_ خالد نے غصہ کے عالم میں اس عورت کو برا بھلا کہا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ : اے خالد تم اسکو برے الفاظ سے یاد نہ کرو خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے سبیعہ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر '' عشار'' ایسے توبہ کرے تو خدا اس کے جرم کو بھی معاف کردے_ پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے حکم سے لوگ اس عورت کا جسم باہر لائے اور نماز کے بعد اس کو سپرد لحد کردیا گیا(۱)
رسول خدا کی عنایت اور مہربانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے شروع میں اس عورت کو اقرار کرنے سے روکا اسلئے کہ چار مرتبہ اقرار کرنا اجراء حد کا موجب بنتاہے اور آخر میں حد جاری کرتے وقت اس گنہ کار مجرم کو برا بھلا کہنے سے روکا_
اسیروں پر مہربانی
اسیر ایک شکست خوردہ دشمن ہے جس کے دل کو محبت کے ذریعہ رام کیا جاسکتاہے فتح مند رقیب کیلئے اس کے دل میں جو احساس انتقام ہے اسکو ختم کرکے اسکی ہدایت کیلئے زمین
___________________
۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۷۹)_
ہموار کی جاسکتی ہے _ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے لطف و مہربانی کاایک مظہر اسیروں کے ساتھ حسن سلوک ہے _
ثمامہ ابن اثال کی اسیری
امام محمد باقر عليهالسلام سے منقول ہے کہ کسی سریہ میں ثمامہ ابن اثال کو گرفتار کرکے حضرت رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس لایاگیا ثمامہ اہل یمامہ کے رئیس تھے کہتے ہیں کہ ان کا فیصلہ اہل طئی اور یمن والوں کے درمیان میں بھی مانا جاتا تھا ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے آپکوپہچان لیا اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیاآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم روزانہ اپنے گھر سے ان کے لئے کھانا بھیجتے ، خود ان کے پاس جاتے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے، ایک دن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان سے فرمایا میں تم کو تین چیزوں کے منتخب کرنے کا اختیار دیتاہوں، پہلی بات تو یہ ہے کہ تم کو قتل کردوں، ثمامہ نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ ایک بہت بڑی شخصیت کو قتل کرڈالیں گے_حضرت نے فرمایادوسری بات یہ ہے کہ اپنے بدلے کچھ مال فدیہ کے طور پر تم ادا کردو اور آزاد ہوجاؤ_ ثمامہ نے کہا اگر ایسا ہوگا تو میرے لئے بہت زیادہ مال ادا کرنا پڑیگااور میری قیمت بہت زیادہ ہوگی (یعنی میری قوم کو میری آزادی کیلئے بہت مال دینا پڑیگا) کیونکہ میں ایک بڑی شخصیت کا مالک ہوں، رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا تیسری
___________________
۱) ( سیرت رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم رفیع الدین الحق ابن محمد ہمدانی ج۲ ص۱۰۹۲)_
صورت یہ ہے میں تجھ پر احسان کروں اور تجھے آزاد کردوں ، ثمامہ نے کہا اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ایسا کریں گے تو مجھے شکرگزار پائیں گے پھر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے حکم سے ثمامہ کو آزاد کردیا گیا _ ثمامہ نے ایمان لانے کے بعد کہا : خدا کی قسم جب میں نے آپکو دیکھاتھا تو سمجھ تھا کہ آپ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ہیں اور اسوقت میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے زیادہ کسی کو دشمن نہیں رکھتا تھا اور اب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں _
دوسروں کے حقوق کا احترام
کسی بھی معاشرہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ حقوق کی رعایت کی جائے اور ان کو پامال ہونے سے بچایا جائے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم حق و عدالت قاءم کرنے کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سماجی کردار میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دوسروں کے حقوق کا حدو درجہ احترام کیا کرتے تھے_
حضرت موسی بن جعفر عليهالسلام سے منقول ہے کہرسول صلىاللهعليهوآلهوسلم پر ایک یہودی کے چند دینار قرض تھے، ایک دن اس نے اپنے قرض کا مطالبہ کیا حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: پیسے نہیں ہیں لیکن اس نے یہ عذر قبول نہیں کیا ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں ، پھر یہودی بھی وہیں بیٹھ گیا ، یہاں تک کہ ظہر ، عصر ، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز وہیں ادا کی اصحاب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہودی کو ڈانٹا کہ تو نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو کیوں بٹھارکھاہے ؟ لیکن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے منع کیا اور
فرمایا : کہ خدا نے ہمیں اسلئے مبعوث کیا ہے کہ جو امن و امان میں ہے اس پر یا اس کے علاوہ اور کسی پر ستم کیا جائے، جب صبح ہوئی اور سورج ذرا بلند ہوا تو یہودی نے کہا :اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوله پھر اس نے اپنا آدھا مال راہ خدا میں دےدیا اور کہا میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمان صلىاللهعليهوآلهوسلم کیلئے جو صفتیں بیان ہوئی ہیں وہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم میں ہیں یا نہیں ہیں ، توریت میں بیان ہوا ہے کہ ان کی جائے پیدائشے مکہ، محل ہجرت مدینہ ہے ، وہ تندخو نہیں ہوں گے بلند آواز سے اور چیخ کرباتیںنہیں کریں گے اپنی زبان پر فحش باتیں جاری نہیں کریں گے _ میں نے دیکھا کہ یہ اوصاف آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم میں موجود ہیں اور اب یہ آدھا مال آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اختیار میں ہے_(۱)
بیت المال کی حفاظت
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم حاکم اسلام ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے اسلئے کہ بیت المال معاشرہ کے تمام افراد کے حقوق سے متعلق ہے _ غیر مناسب مصرف سے روکنا لازمی ہے اس سلسلہ میں آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا رویہ بھی بڑا سبق آموز ہے _
سنہ ۹ ھ میں '' ابن اللیثہ'' نامی ایک شخص مسلمانوں کی ایک جماعت میں زکوة وصول
___________________
۱) (حیوة القلوب ج۲ ص ۱۱۷)_
کرنے کیلئے بھیجا گیا وہ زکوة وصول کرکے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آیا اس نے کہا : یہ زکواة ہے اور یہ ہدیہ جو مجھ کو دیا گیا ہے نبی اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم منبر پر تشریف لے گئے اور حمد خدا کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: ہم نے کچھ لوگوں کو اس کام کے انجام دینے کیلئے بھیجا جس کام کا خدا نے مجھ کو حاکم بنایا ہے ، ان میں سے ایک شخص میرے پاس آکر کہتاہے یہ زکوة ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے _ میں پوچھتاہوں وہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھا رہتا تا کہ دیکھ لے کہ اس کیلئے کوئی ہدیہ آرہا ہے یا نہیں ؟ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص زکوة کا مال لیگا تو وہ قیامت کے دن اس کی گردن میں ڈال دیا جائیگا_ وہ مال اگر اونٹ ہے تو اسکی گردن میں اونٹ ہوگا اور اگر گائے یا گوسفند ہے تو یہی اسکی گردن میں ہوں گے پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دو مرتبہ فرمایا خدایا میںنے پیغام پہنچادیا(۱)
حضرت علی عليهالسلام اور بیت المال
جو حضرات عمومی اموال کو خرچ کرنے میں اسلامی اصولوں کی رعایت نہیں کرتے تھے ان کے ساتھ علی کا وہی برتاؤ تھا جو رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا تھا اس سلسلہ کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے _عبداللہ( یا عبیداللہ) ابن عباس کو ایک خط میں حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ '' خدا سے ڈرو اور لوگوں کے اس مال کو جو تم نے لے لیا ہے واپس کردو اگر تم یہ کام نہیں کروگے تو خدا
___________________
۱) ( ناسخ التواریخ ج۲ ص ۱۵۹)_
مجھ کو تم پر قوی بنائیگا اور میں تم پر دسترسی حاصل کرکے تم کو تمہارے کیفر کردار تک پہونچانے میں خدا کے نزدیک معذور ہونگا اور تم کو اس تلوار سے قتل کردوں گا جس سے میں نے جسکو بھی قتل کیا ہے وہ جہنم میں داخل ہواہے خدا کی قسم اگر حسن و حسین (علیہما السلام) بھی ایسا کام کرتے جیسا تم نے کیا ہے تو ان سے بھی صلح و موافقت نہیں کرسکتا تھا اور وہ میرے ذریعہ اپنی خواہش تک نہیں پہونچ سکتے تھا یہاں تک کہ میں ان سے حق لے لوں اور جو باطل ان کے ستم سے واقع ہوا ہو اسکو دور کردوں ''(۱)
بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا
ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی مشکلات حل کرنا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عملی منصوبوں کا جزء اور اخلاقی خصوصیات کا حصہ تھا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کبھی کسی ساءل کے سوال کو رد نہیں کیا(۲) لیکن خاص موقع پر افراد کی عمومی مصلحت کے مطابق یا کبھی معاشرہ کی عمومی مصلحت کے تقاضہ کی بناپر رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے ایسا رویہ اسلئے اختیار کیا تا لوگوں کے اندر '' بے نیازی کا حوصلہ '' پیدا ہوجائے_
___________________
۱) (نہج البلاغہ فیض مکتوب نمبر ۴۱ / ص ۹۵۸)_
۲) (سنن النبی ص ۸۴)_
مدد کی درخواست
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ایک صحابی فقر و فاقہ سے عاجز آچکے تھے اپنی بیوی کی تجویز پرحضور صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچے تا کہ مدد کی درخواست کریں ابھی وہ اپنی ضرورت کو بیان بھی نہیں کرپائے تھے کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: اگر کوئی مجھ سے مدد مانگے تو میں اسکی مدد کروں گا لیکن اگر کوئی بے نیازی کا ثبوت دے تو خدا اسکو بے نیاز بنادیگا، اس صحابی نے اپنے دل میں کہا کہ یہ اشارہ میری ہی طرف ہے لہذا وہ واپس گھر لوٹ گئے اور اپنی بیوی سے ماجرا بیان کیا _ دوسرے دن پھر غربت کی شدت کی بناپررسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں وہی مدعا لے کر حاضر ہوئے مگر دوسرے دن بھی وہی جملہ سنا اور گھر لوٹ آئے،جب تیسری بار رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم سے پھر وہی جملہ سنا تواپنی مشکل کو حل کرنے کا راستہ پاگئے، انہوں نے صحرا میں جاکر لکڑیاں جمع کرنے کا ارادہ کیا تا کہ اسکو بیچ کر رزق حاصل کریں کسی سے عاریت ایک کلہاڑی مانگ لائے ، پہاڑ پر چلے گئے اور وہاں سے کچھ لکڑیاں کاٹ کر فروخت کردیں پھر روزانہ کا یہی معمول بن گیا ، رفتہ رفتہ وہ ا پنے لئے کلہاڑی ، باربردار جانور اور سارے ضروری سامان خرید لائے پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ دولت مند بن گئے بہت سے غلام خرید لئے، چنانچہ ایک روز پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ بیان کیا_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ جو مجھ سے مانگے کا میں اسکی مدد کرونگا لیکن اگر بے نیازی اختیار کریگا تو خدا اسکو بے نیاز کردیگا _(۱)
___________________
۱)( اصول کافی ج۲ ص ۱۱۲ باب القناع)_
بے نیاز اور ہٹے کٹے آدمی کیلئے صدقہ حلال نہیں
ایک شخص پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آیا اس نے کہا '' دو دن ہوگئے ہیں میں نے کھانا نہیں کھایا'' حضرت نے فرمایا: بازار جاو اور اپنے لئے روزی تلاش کرو دوسرے دن وہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کل میں بازار گیا تھا مگر وہاں کچھ نہیں ملاکل رات بھوکا ہی سوگیا _ حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : '' علیک بالسوق'' بازار جاؤ تیسرے دن بھی جب اس نے یہی جواب سنا تو اٹھ کر بازار کی طرف گیا ، وہاں ایک قافلہ آیا ہوا تھا اس شخص نے سامان فروخت کرنے میں ان کی مدد کی آخر میں انہوں نے نفع میں سے کچھ حصہ اسکو دیدیا دوسری بار وہ پھر رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ بازار میں مجھے کچھ بھی نہیں ملا حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : فلان قافلہ سے تجھ کچھ نہیں ملا ؟ اس نے کہا نہیں حضرت نے فرمایا: کیوں تم کو ان لوگوں نے کچھ نہیں دیا ؟ اس شخص نے کہا ہاں دیا ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا پھر تو نے کیوں جھوٹ بولا؟ اس شخص نے کہا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سچ فرماتے ہیں میں دیکھنا چاہتا تھاکہ آپ لوگوں کے اعمال سے باخبرہیں یا نہیں ؟ اور میں یہ چاہتا تھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے بھی کچھ حاصل ہوجائے_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک کہا، جو شخص بے نیازی سے کام لیگا خدا اسکو بے نیاز کردیگا اور جو اپنے اوپر سوال کا ایک دروازہ کھولیگا خدا فقر کے ستر (۷۰) دروازے اس کے لئے کھول دیگا ایسے دروازے جو پھر بند ہونے کے قابل نہ ہوں گے ، اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : جو بے نیاز ہے اسکو صدقہ دینا حلال نہیں ہے اور اسے بھی
صدقہ نہیں دینا چاہئے جو صحیح و سالم اعضاء کا مالک ہو اور اپنی ضرورت پوری کرسکتاہے(۱)
ایک دوسرے کی مدد کرنا
حضور اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ایک ایسے رہبر تھے جو خود انسان تھے، انہیں کے درمیان پیدا ہوئے تھے، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم امت سے جدا نہیں تھے کہ اپنے پیروکاروں کو رنج و الم میں چھوڑ دیں اور خود آرام و آسائشے کی زندگی گزاریں بلکہ ہمیشہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہر میدان میں خود آگے رہے خوشی اور غم میں سب کے شریک اور سعی و کشش میں دوسروں کے دوش بدوش رہتے اور دشواریوں میں جان کی بازی لگادیتے تھے_ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بستر علالت پر تھے، حضرت بلال کو بلایا، پھر مسجد میں تشریف لے گئے اور حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا: اے میرے اصحاب میں تمہارے واسطے کیسا پیغمبر تھا؟ کیا میں نے تمہارے ساتھ جہاد نہیں کیا ؟ کیا میرے دانت نہیں ٹوٹے ؟ کیا میرا چہرہ غبار آلود نہیں ہوا؟ کیا میرا چہرہ لہولہان نہیں ہوا یہاں تک کہ میری داڑی خون سے رنگین ہوگئی ؟ کیا میں نے اپنی قوم کے نادانوں کے ساتھ حد درجہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ کیا میں نے اپنے پیٹ پر پتھر نہیں باندھے؟ اصحاب نے کہا : بے شک یا
رسول اللہ آپ بڑے صابر رہے اور برے کاموں سے منع کرتے رہے لہذا خدا آپ کو
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۱۵ ط بیروت)_
بہترین جزادے ، حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: خدا تم کو بھی جزائے خیر عنایت فرمائے(۱)
حضرت علی عليهالسلام سے منقول ہے : میں خندق کھودنے میںآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ تھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کچھ روٹیاں لیکر آئیں ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ جناب فاطمہ نے عرض کیا کچھ روٹیاں میں نے حسن و حسین کیلئے پکائی تھیں ان میں سے کچھ آپ کیلئے لائی ہوں _ حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: تین دن سے تیرے باپ نے کچھ نہیں کھایا ہے تین دن کے بعد آج پہلی بار میں کھانا کھارہاہوں_
خندق کھودنے میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں اور انہیں کی طرح بھوک کی سختی بھی برداشت کررہے ہیں _
دشمنوں کے ساتھ آپکا برتاو
جنگ کے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی عملی سیرت اور سپاہیوں کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت اور دشمن سے مقابلہ کے وقت کی ساری باتیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بلندی روح اور وحی الہی سے ماخوذ ہونے کا پتہ دیتی تھیںنیز وہ باتیں بڑی سبق آموز ہیں_
امام جعفر صادق عليهالسلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم جب چاہتے تھے کہ لشکر کو روانہ فرمائیں تو سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر نصیحت کرتے اور فرماتے تھے: خدا کا نام لیکر روانہ ہو
___________________
۱) (بحارالانوار ج۲۲ / ص۵۰۸)_
۲) ( حیات القلوب ج ۲ ص ۱۱۹)_
اور اس سے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اللہ کیلئے جہاد کرو اے لوگو امت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ مکر نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا ، کفار کو مثلہ نہ کرنا ، (ا ن کو قتل کرنے کے بعد ان کے کان ناک اور دوسرے اعضاء کو نہ کاٹنا) بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، جب راہب اپنے غاروں یا عبادتگاہوں میں ہیں ان کو قتل نہ کرنا، درختوں کو جڑ سے نہ اکھاڑنا، مگر مجبوری کی حالت میں ، نخلستانوں کو آگ نہ لگادینا، یا انہیں پانی میں عرق نہ کرنا، میوہ دار درختوں کو نہ توڑنا، کھیتوں کو نہ جلانا، اسلئے کہ ممکن ہے تم کو ان کی ضرورت پڑجائے ، حلال جانوروں کو نابود نہ کردینا، مگر یہ کہ تمہاری غذا کیلئے ان کو ذبح کرنا ضروری ہو جائے ، ہرگز ہرگز مشرکوں کے پانی کو خراب نہ کرنا حیلہ اور خیانت سے کام نہ لینا دشمن پر شبیخون نہ مرنا_
مسلمانوں میں سے چھوٹا یا بڑا کوئی بھی اگر مشرکین کو پناہ دیدے تو اسکو پناہ حاصل ہے، یہاں تک کہ وہ کلام خدا کو سنے اور تم اس کے سامنے اسلام پیش کرو اگر اس نے قبول کیا تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر اس نے قبول نہیں کیا تو اسکو اس کے ہرامن ٹھکانے تک پہونچادو_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص۱۷۹ ، ۱۷۸،۱۷۷)_
خلاصہ درس
۱) آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سماجی برتاو میں جو اخلاقی اصول نظر آتے ہیں وہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی محبت اور مہربانی کا مظہر ہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مہرومحبت کا سایہ اس قدر وسیع تھا کہ گنہگاروں کے سروں پر بھی تھا_
۲) پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم مظہر حق و عدالت تھے، دوسروں کے حقوق کا حد درجہ احترام فرماتے تھے چنانچہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے معاشرتی روابط و برتا اور اصول اخلاق میں سے ایک چیز یہی تھی_
۳)رسول خد صلىاللهعليهوآلهوسلم حاکم اسلام تھے اور مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی بڑی ذمہ داری بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہی پر عاءد ہوتی تھی کیونکہ بیت المال میں معاشرہ کے تمام افراد شریک ہیں اسکو بے جا خرچ ہونے سے بچانا لازمی ہے اس سلسلہ میںآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا رویہ بڑا سبق آموز ہے _
۴ ) حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنا ان کے مشکلات کو حل کرنا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت اور اخلاقی خصوصیات کا جزء تھا پھر بھی خاص موقع پر افراد یا معاشرہ کی عمومی مصلحتوں کے تقاضہ کی بناپر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لوگوں میں بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے_
۵)پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ہر میدان میں سب سے آگے تھے لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک تھے دوسروں کے ساتھ کوشش میں شامل رہتے اور مشکلات نیز سختیوں کو اپنی جان پر
جھیل جاتے تھے_
۶) رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی جنگ میں حاضر ہوتے وقت کی سیرت عملی یا لشکر کو روانہ کرتے وقت کے احکام اور دشمنوں کے ساتھ سلوک کا جو حکم صادر فرماتے تھے ان کو دیکھنے سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بلند روح کا اندازہ ہوتاہے اور یہ پتہ چلتاہے کہ ان تمام باتوں کا تعلق وحی الہی سے ہے _ نیز آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دوسرے سبق آموز رویہ کا بھی اسی سے اندازہ ہوجاتاہے_
سوالات :
۱_ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بارے میں حضرت پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا قول بیان فرمایئے
۲_ اپنے ماتحتوں کے ساتھ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا سلوک تھا اسکا ایک نمونہ پیش کیجئے؟
۳_ اسیروں اور گناہ گاروں کےساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا سلوک تھا؟ اختصار سے بیان فرمایئے
۴ _ بیت المال کے سلسلہ میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا رویہ تھا؟
۵ _ حاجت مندوں کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا سلوک تھا تفصیل کے ساتھ تحریر فرمایئے
۶ _جنگوں (غزوات و سرایا) میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کیا سیرت رہی ہے ؟ تفصیل کے ساتھ بیان کیجئے؟
پانچواں سبق:
(عہد کا پورا کرنا)
انسان کی زندگی سماجی زندگی ہے اور سماجی زندگی اپنی نوع کے افراد سے روابطہ رکھنے پر مجبور کرتی ہے _ سماجی زندگی عہد و پیمان کا سرچشمہ ہے اور عہد وپیمان کی رعایت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ بغیر اس کے سماجی امن و امان ختم ہوجاتاہے اور صلح وصفائی کی جگہ جنگ و جدال لے لیتے ہیں _
اسلام، جس میں بہت بنیادی اور مضبوط سماجی قوانین موجود ہیں اس نے اس اہم اور زندگی ساز اصول کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ اس نے مختلف اوقات میں الگ الگ عنوانات کے ساتھ مسلمانوں کو اس کی رعایت اور تحفظ کی تلقین کی ہے _
قرآن کریم جو کہ اسلام کی زندہ سند ہے وہ عہد و پیمان کے ساتھ وفاداری کو لازم سمجھتاہے اور مؤمنین کو اس رعایت کرنے کی تلقین کرتاہے_
ارشاد ہوتاہے:
( یا ایها الذین آمنوا اوفوا بالعقود )
(اے مؤمنین تم نے جو پیمان باندھا ہو اس کے وفادار رہو )(۱)
دوسری جگہ انسانوں کو قرار داد کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوتاہے:
( واوفوا بالعهد ان العهد کان مسؤلا ) (۲)
اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو بیشک عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا جائیگا_
خداکی طرف سے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا تعارف بہترین نمونہ کے طور پر کرایا گیاہے انہوں نے زندگی کی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ہے عہد کو پورا کرنا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ایمان کا جزء سمجھتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اصحاب اور پیروکاروں سے عہد و پیمان کی رعایت کرنے کے سلسلہ میں فرمایا:
اقربکم منی غدا فی الموقف اوفاکم بالعهد (۳)
کل قیامت میں تم میں سے وہ مجھ سے زیادہ قریب ہوگا جو اپنی عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ باوفا ہو_
عہد و پیمان کو پورا کرنے کی اہمیت پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک اتنی تھی کہ حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
''لا دین لمن لا عهد له'' (۴)
___________________
۱) (سورہ ماءدہ آیت ۱)_
۲) ( سورہ الاسراء آیت ۳۴)_
۳) (بحارالانوار ج۷۷ ص ۱۵۲)_
۴) (بحارالانوارج۷۵ ص ۹۲ حدیث ۲۰)_
جو عہد و پیمان کی وفاداری نہ کرے وہ دیندار نہیں ہے_
دوسری جگہ فرمایا:
''من کان یوم بالله والیوم الاخرفلیف اذا وعد'' (۲)
جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے وعدہ وفا کرنا چاہیئے_
حضرت امیر المؤمنین علی عليهالسلام نے بھی مالک اشتر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: '' ایسا نہ ہو کہ کبھی کسی سے وعدہ کرو اور اس کے خلاف عمل کرو بیشک وعدہ کی خلاف ورزی انسان کو خدا اور بندوں کے نزدیک رسوا کرتی ہے _(۳)
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عہد و پیمان
وعدہ پورا کرنے میں پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا بڑا بلند مقام و مرتبہ تھا چاہے وہ بعثت سے پہلے کا زمانہ ہو یا بعثت کے بعد کا ، چاہے وہ زمانہ ہو جس میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اصحاب اور اپنے پیروکاروں کے ساتھ عہد کیا ہو یا وہ وقت جب آپ نے کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ کسی قرار داد کو قبول فرمایا ہو ، تمام جگہوں پر آپ اس وقت تک اس عہد و پیمان پر ڈٹے رہتے تھے جب تک مد مقابل نے پیمان شکنی نہ کی ہاں اگر در مقابل عہد شکنی کرتا تو اس صورت عہد پھر دونوں طرف سے ٹوٹ جاتا_ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عہد و پیمان دو قسم کے تھے:
___________________
۱) (اصول کافی ج۴ ص ۶۹)_
۲) (بحارالانوار ج۷۵ ص ۹۶)_
۱) آپکے ذاتی اور شخصی عہد و پیمان کہ جنکا صرف آپکی ذات سے تعلق تھا مسلمانوں کے معاشرہ سے اسکا کوئی تعلق نہ تھا _
۲) آپکے اجتماعی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں کہ ایک طرف آپ اسلام کے رہبر کے عنوان سے تھے اور دوسری طرف مسلمان یا مکہ کے مشرکین یا مدینہ کفار اور یہودی تھے_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ذاتی عہد ویمان
آپکی صلىاللهعليهوآلهوسلم زندگی میں معمولی اسی دقت بھی آپکے پسندیدہ اخلاق اور شاءستہ رفتار سے آشنا کروانے کیلئے کافی ہے_
عبداللہ ابن ابی الحمساء کہتے تھے کہ رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے میں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے معاملہ کیا تھا، میں ذرا قرضدار ہوگیا تھا_ میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ آپ اسی جگہ ٹھہریں میں آجاؤںگا لیکن اس دن اور اسکے دوسرے دن میں بھول گیا تیسرے دن جب میں وہاں پہنچا تو محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اسی جگہ منتظر پایا میں نے کہا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ابھی تک اسی جگہ ہیں آپ نے فرمایا جس وقت سے میں نے تم سے وعدہ کیا ہے میں اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں_(۱)
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۷ ص ۲۵۱)_
معاہدہ کی پابندی کا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' کا معاہدہ ہے ، یہ وہ معاہدہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں قریش کے کچھ جوانوں نے مظلومین کے حقوق سے دفاع کے لئے کیا تھا پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی اس میں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلکہ بعثت کے بعد بھی جب کبھی اسکو یاد کرلیتے تو فرماتے کہ میں اس عہد کو توڑنے پر تیار نہیں ہوں چاہے اس کے بدلے میرے سامنے بہت قیمتی چیز ہی کیوں نہ پیش کی جائے_(۱)
عمار یاسر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی گوسفند چرا رہے تھے ایک دن میں نے آپ سے کہا کہ میں نے مقام ''فج'' میں ایک عمدہ چراگاہ دیکھی ہے کیا آپ کل وہاں چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، جب میں صبح وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ پہلے سے موجود ہیں لیکن گوسفند کو چرنے کے لئے چراگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا ہے میں نے پوچھا آپ ایسے ہی کیوں کھڑے ہیں ؟ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا میں نے تم سے عہد کیا تھا کہ ہم دونوں ملکر گوسفند چرائیں گے _ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ خلاف وعدہ عمل کروں اور اپنے گوسفند کو تم سے پہلے ہی چرالوں _(۲)
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تم آؤگے اسی پتھر کے کنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمی بہت زیادہ تھی اصحاب نے
___________________
۱) (سیرہ حلبی ج۲ص ۱۳۱)_
۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۲۴)_
فرمایا: اے اللہ کے رسول آپ سایہ میں چلے جائیں اور وہاں اسکا انتظار کریں پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: میں نے اس سے وعدہ کیا ہے میں یہیں رہو نگا اگر وہ نہیں آئیگا تو وعدہ کے خلاف عمل کرے گا _(۱)
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اس قسم کے سلوک سے اسلام میں وعدہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے_
اجتماعی معاہدوں کی پابندی
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے مدینہ پہونچنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل کی وجہ سے سماجی معاہدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے کہ قریش جو آپ کے بڑے دشمن تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہودی کہ جو صاحب کتاب تھے لیکن حق کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے وہ اپنی مخصوص ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی ایسے دین کو ماننے پر تیار نہ تھے جس کو غیر بنی اسرائیل کا کوئی شخص لایا ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہحضور صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے لائے ہوئے دین کو عالمی دین سمجھتے تھے اسی لئے صرف مدینہ میں رہنے والے محدود افراد پر اکتفاء نہیں کرسکتے تھے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ دوسروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں ان پہلوؤں کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے عرب کے بعض
___________________
۱) (بحارالانوار ج۹۵/۷۵)_
قباءل سے دفاعی معاہدہ کیا اس معاہدہ کی بنیاد پر اگر کوئی کسی پر زیادتی کرتا تو دوسرے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ تم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا یعنی طرفین میں کوئی بھی کسی پر نہ زیادتی کرے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے ان میں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کفار قریش اور مدینہ کے یہودیوں سے کئے تھے_
مشرکین سے معاہدوں کی پابندی
سنہ ۶ ھ میں پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مسجد الحرام میں مناسک حج ادا کررہے ہیں پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اس خواب کو اپنے اصحاب کے سامنے بیان کیا اصحاب نے اسکو نیک فال سمجھا لیکن بعض افراد کو اسکی صحت پر ابھی مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوا تھا کہ خدا نے اپنے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے خواب کی تعبیر میں آیت نازل کی:
( لقد صدق الله رسوله الروایا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء الله آمنین محلقین رؤسکم مقصرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً ) (۱)
___________________
۱) (فتح آیت ۲۷)_
(بیشک خدا نے اپنے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے خواب کو آشکار کردیا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں کے بال منڈواکر اور تقصیر کیے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہیں جانتے اور خدا نے اس ( مکہ میں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزدیک کامیابی (صلح حدیبیہ) قرار دی)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے کہ وہ بہت جلد نہایت محافظ طریقہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے جائیں گے _
ماہ ذیقعدہ میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے عمرہ کے قصد سے مکہ جانے کا ارادہ کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ مکہ چلنے کی دعوت دی چنانچہ ایک جماعت کے ساتھ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مکہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خبردی گئے کہ قریش آپ کی آمد سے واقف ہوگئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کوجنگ کے لئے تیار کرلیاہے وہ لوگ مقام '' ذی طوی'' میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور انہوں نے قسمیں کھائی ہیں کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لوگوں کو مکہ نہیںجانے دیں گے _
چونکہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم جنگ کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاکرہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے چند امور کو انجام دینے کی پابندی اپنے اوپر عاءد کی ان میں سے مجھ درج ذیل ہے_
۱_ قریش میں سے اگر کوئی بھی شخص اپنے بزرگ کی اجازت کے بغیر مکہ سے فرار کرکے اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں سے آکر مل جائے تو محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم اسے قریش کو واپس کردیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھاگ کر قریش سے جاملے تو قریش اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اسکو واپس کردیں '' جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم قریش کے نمآئندہ کے ساتھ یہ معاہدہ کررہے تھے اسی وقت سہیل کا بیٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگیا تھا لیکن اپنے مشرک باپ کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا مکہ سے فرار کرکے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا سہیل نے جب اسکو دیکھا تو کہا اے محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم یہ معاہدہ کی پابندی کا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح قاءم رہے تو اسکو واپس کردیں پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے قبول کیا سہیل نے اپنے بیٹے کا گریبان پکڑا اور کھینچتے ہوئے مکہ لے گیا_
ابوجندل نے (نہایت ہی دردناک لہجہ میں ) فریاد کی کہ اے مسلمانو کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کیا کردیا جائے اور میں دوبارہ ان کے چنگل میں پھنس جاؤں؟ حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: اے ابوجندل صبر کرو خدا تمہارے اور تم جیسوں کے لئے کشادگی پیدا کریگا ہم نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پیمان نہیں توڑسکتے(۱)
___________________
۱) (سیرہ ابن ہشام ج۳ص۳۳۲ _ ۳۳۳)_
یہ ایک ہی موقع نہیں تھا کہ جب پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے صلح نامہ کی اس شرط کی مطابق عمل کیا تھا کہ جو مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ جب کوئی مسلمان مشرکین کے چنگل سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملتا تھا اسی وقت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اسے ان کے حوالہ کردیتے تھے جیسا کہ ابوبصیر کا واقعہ گواہ ہے_
ابوابصیر ان مسلمانوں میں شامل ہے جو مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد وہاں سے فرار کرکے مدینہ آگئے تھے قریش کے نمایان افراد نے ایک خط پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے نام لکھا اور اس کو ایک شخص کے حوالہ کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مدینہ جاکر رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو وہ خط پہنچا دے تا کہ قرار داد کے مطابق ابوبصیر کے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے واپس لیکر مکہ لوٹ آئے جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصیر کو بلایا اور کہا اے ابوبصیر تم کو معلوم ہے کہ ہم نے قریش سے عہد و پیمان کیا ہے اور اس معاہدہ کی مخالفت ہمارے لئے صحیح نہیں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جیسوں کیلئے کشادگی پیدا کریگا ابوبصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ہم کو دشمن کے سپرد کردینگے تا کہ وہ ہم کو دین سے برگشتہ کردیں ؟آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: اے ابوبصیر پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پیدا کریگا_
ابوبصیر ان دونوں کے ساتھ مکہ کی طرف چل دیئے جب مقام ''ذوالحلیفہ'' پر پہونچے تو ایک دیوار کے سایہ میں آرام کرنے لگے ابوبصیر نے اس آدمی کی طرف رخ کرکے کہا یہ
تمہاری تلوار بہت تیز ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوبصیر نے کہا کیا میں اسکو دیکھ
سکتاہوں اس آدمی نے جواب دیا اگر دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو ابوبصیر نے تلوار اپنے ہاتھ میں لیکر اچانک اس آدمی پر حملہ کرکے اسکو مار ڈالا مقتول کے غلام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ڈر کے مارے مدینہ کی طرف بھاگا_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مسجد کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام داخل ہوا جب آپ کی نظر اس غلام پر پڑی تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ اس نے بڑا ہولناک منظر دیکھا ہے اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا خبر ہے غلام نے کہا کہ ابوبصیر نے اس آدمی کو قتل کردیا
ذرا دیر بعد ابوبصیر بھی خدمت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم میں پہونچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنا عہد و پیمان پورا کیا اور مجھ کو ان کے حوالہ کردیا لیکن میں اپنے دین کے بارے میں ڈرگیا آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : اگر اس شخص کے ساتھی موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا کردیتے_
ابوبصیر نے دیکھا کہ اگر مدینہ میں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائیں گے اور واپسی کا مطالبہ کریں گے اسلئے وہ مدینہ سے نکل کر سواحل دریائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے شام جانے والے قریش کے کاروان تجارت گذرتے تھے_
دوسری طرف جب ابوبصیر کی داستان اور ان کی بارے میںرسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کے قول کا علم ان سارے مسلمانوں کو ہوا جو مکہ میں پھنسے ہوئے تھے تو وہ کسی طرح سے اپنے کو مشرکین کے چنگل سے چھڑا کر مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر تک پہنچے یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں ابوبصیر سے جاملنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر (۷۰) ہوگئی اب وہ لوگ قریش کے قافلہ کیلئے
واقعی خطرہ بن گئے اگر قریش میں سے کوئی مل جاتا تھاتو یہ لوگ اس کو قتل کردیتے تھے اور اگر کوئی قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے یہاں تک کہ قریش نے تھک کررسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خط لکھا اور یہ گذارش کی کہ ان کو مدینہ بلالیں اور قریش کو ان کے ہاتھوں اطمینان حاصل ہوجائے تو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو بلایا اور سب لوگ مدینہ چلے آئے _
ابوجندل اور ابوبصیر کو واپس کردینے کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ رسول خدا انسانی بلند قدروں کی اہمیت سمجھتے تھے_
___________________
۱) (سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۳۷ ، ۳۳۸)_
خلاصہ درس
۱) قرآن کریم اسلام کی زندہ سند ہے وہ معاہدہ کی پابندی کو ضروری سمجھتاہے اور مؤمنین کو اسکی پابندی کی تلقین کرتاہے_
۲)پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کا خدا کی طرف سے بہترین نمونہ کے عنوان سے تعارف کروایا گیاآپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھی زندگی کی اس بنیادی بات سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسکی پابندی کی تلقین کی ہے_
۳) عہد و پیمان سے وفاداری اور معاہدہ کی پابندی کی پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپ کے اہل بیت کے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:لا دین لمن لاعهد له '' وہ شخص دین دار نہیں ہے جو معاہدہ کا پابند نہیں ہے _
۴) کلی طور پرا گرپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے معاہدوں کا جاءزہ لیا جائے تو دو طرح کے معاہدے نظر آتے ہیں_
الف: ذاتی معاہدہ
ب: سماجی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں
۵ ) تاریخ پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تحقیق سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ کے نزدیک دونوں ہی طرح کے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنی طرف سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا_
سوالات :
۱_ عہدو پیمان کی پابندی کے سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ اسلام کا نظریہ بیان کیجئے؟
۲_ عہد و پیمان کی پابندی کی اہمیت کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟
۳_پیغمبر اکرم کے کسی ذاتی معاہدہ کا ذکر کیجئے_
۴_ سیاسی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ بیان کرتے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے طریقہ کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟
۵ _ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کفار قریش کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے وہ کس نوعیت کے حامل تھے؟
چھٹا سبق:
(یہودیوں کیساتھآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے معاہدے)
مدینہ وہ شہر تھا کہ جہاں بمدت عرصہ قبلی یہود کے کچھ قباءل نے ہجرت کی اور وہ اس پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ جسکی توریت نے بشارت دی تھی چونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے ان کی رسالت کو قبول کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا تھا_ لیکن چوں کہ مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کے باہمی قدیمی اخلاف کو ختم کرکے ایک امت بنادیا تھا اسلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں کے ممکن الوقوع خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے ان میں سے چند سربرآوردہ اشخاص پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:
اے محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم ہم آپ کے پاس معاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، آپ کے اصحاب پر حملہ نہیں کریں گے اور آپ کے خلاف کسی بھی گروہ کی مدد نہیں کریں گے _ اسی طرح آپ بھی ہم سے کوئے سروکار نہ
رکھیں گے بعد میں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتاہے_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے قبول فرمایا اور جو معاہدہ نامہ لکھا گیا اسمیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اضافہ فرمایا کہ اگر یہودیوں نے اس قرار داد کے خلاف عمل کیا تو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ان کا خون بہانے، ان کے مال کو ضبط کرلینے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے میں آزاد ہوں گے _
اس معاہدہ پر تین بزرگ قبیلوں، بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع نے دستخط کئے _(۱)
البتہ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی اس طرح سیاسی اور سماجی معاہدے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں ، پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ان تمام معاہدوں پر ثابت قدم رہے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے ایک بار بھی کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو_
معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا برتاو
جس طرح پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم معاہدوں کے پابند تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح پیمان شکنی سے بیزار بھی تھے اور اس کو ایک ناشاءستہ عمل جانتے تھے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نظر میں پیمان شکنی کرنیوالا گنہگار اور سزا کا مستحق تھا_
انفرادی معاہدہ میں اگر کسی نے معاہدہ کرکے توڑ دیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بزرگی اور عظمت کے
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص ۱۱۰ ، ۱۱۱)_
خلاف یہ بات تھی کہ آپ اس سے سوال کرتے_ لیکن اجتماعی اور سیاسی معاہدوں میں جس کا تعلق نظام اسلام سے ہوتا تھا ، ان سے کسی طرح کی چشم پوشی کو آپ روا نہیں رکھتے تھے اور اس سے نہایت سختی کا برتاو کرتے تھے اسکا ایک نمونہ وہ رد عمل ہے جس کا اظہار آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے معاہدہ توڑدینے پر فرمایا تھا_
مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے جو قباءل آباد تھے ان کیلئے تقریبا ہر ایک نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعرض نہ کرے اور مشترک دفاع کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان میں سے ہر گروہ نے بڑے نازک موقع پر اپنا معاہدہ توڑا اور اسلام سے اپنے بغض اور عناد کا مظاہرہ کیا تھا _ ذیل میں ایسی چند مثالوں اور ان عہدشکنی کرنیوالوں کے ساتھ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا جو برتاؤ تھا اس کی طرف اشارہ کیا جائیگا_
بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی
''بنی قینقاع '' یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ جنگ و جدال سے پرہیز کا معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی کچھ دن نہ گذرے تھے کہ اسلام کو سرعت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنا معاہدہ توڑڈالا ، اس گروہ نے افواہیں پھیلانا اور اسلام کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگانا شروع کردیئے _
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بنی قینقاع کے بازار میں تقریر کی اور انہیں بہت سختی سے خبردار کیا_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کلمات سے نصیحت حاصل کرنے کے بجائے بنی قنیقاع کے یہودی جواب دینے پر اتر آئے اور کہنے لگے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں اور قریش کی طرح جنگ کے رموز سے نا واقف ہیں ؟ آپ اس گروہ سے الجھ پڑے تھے جو جنگ کے اصولوں اور ٹیکنیک سے واقف نہیں تھا لیکن بنی قنیقاع والوں کی طاقت کا آپ کو اس وقت اندازہ ہو گا جب آپ میدان جنگ میں ان سے مقابلہ کیلئے اتریں گے _
ان تیزو تند باتوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا بلکہ مسلمان تیار ہوگئے کہ کسی مناسب موقعہ پر ان کی رجز خوانی کا جواب دیں ،ایک دن ایک عرب عورت بنی قنیقاع کے بازار میں ایک یہودی سنا رکی دکان پر کچھ سامان بیچ رہی تھی اور اس حوالے سے محتاط تھی کہ کوئی اسکا چہرہ نہ دیکھے مگر بنی قینقاع کے کچھ یہودیوں کو اس کا چہرہ دیکھنے پر اصرار تھا لیکن چونکہ عورت اپنا چہرہ دکھانے پر تیار نہیں تھی اس لئے یہودی سنار نے اس عورت کے دامن کو اس کی پشت پر سی دیا _
تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت اٹھی تو اس کے جسم کا کچھ حصہ نمایاں ہوگیا یہ دیکھ کر بنی قنیقاع کے کچھ جوانوں نے اس عورت کا مذاق اڑایا _
بنی قینقاع کا یہ عمل اعلانیہ طور پر پیغمبر سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ رہا تھا اس عورت کی حالت دیکھ کر ایک مسلمان کو طیش آگیا اس نے فورا اہتھیار نکالا اور اس یہودی سنا ر کو قتل کر ڈالا ، وہاں جو یہودی موجود تھے انہوں نے مل کر اس مسلمان کو بہت بری طرح قتل کیا _
ایک مسلمان کے سننے خیز قتل کی خبر دوسرے مسلمانوں کے کان تک پہونچی ، بنی قنیقاع نے جب بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو اپنے ان گھروں میں جاچھپے جو مضبوط قلعوں کے در میان بنے ہوئے تھے_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے حکم دیا کہ دشمن کا محاصرہ کیا جائے مسلمانوں نے پندرہ روز تک قلعوں کا محاصرہ کیا اور کسی طرح کی امداد وہاں تک نہ پہونچنے دی _ قلعہ کے یہودی محاصرہ کی بناپر تنگ آگئے اور انہوں نے اپنے کو پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کے حوالہ کردیا_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو سخت تنبیہہ کی جائے لکن '' عبداللہ ابی '' کے اصرار پر جو مدینہ کا ایک منافق تھا مگر ظاہرمیں اسلام کا اظہار کیا کرتا تھا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سختی نہیں کی اور یہ طئے پایا کہ یہ لوگ اپنا اسلحہ اوراپنی دولت دیکر جتنی جلدی ہوسکے مدینہ کو ترک کردیں(۱)
۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنے والے '' بنی نضیر'' کے یہودی بھی تھے_
ایک دن ایک مسلمان نے قبیلہ بنی عامر کے ایسے دو آدمیوں کو جو رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے معاہدہ کئے ہوئے تھے قتل کرڈالا رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ان لوگوں کا خون بہاء ادا کرنے
___________________
۱) ( مغازی واقدی ج۱ ص ۱۷۶ و ۱۷۸)_
کے سلسلہ میں بنی نضیر کے یہودیوں سے مدد لینے اپنے چند اصحاب کے ساتھ ان کے یہاں گئے _ انہوں نے ظاہر بظاہر بڑی گرم جوشی سے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا استقبال کیا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ایک گھر کی دیوار کے سہارے کھڑے تھے اسی اثنا میں کھانا تناول فرمانے کے لئے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو بلالیا اسی حال میں '' حی ابن خطب'' جو قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا جس نے بنی نضیر کے یہودیوں کی طرف سے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے ہونے والے معاہدہ پر دستخط کئے تھے، خفیہ طور پر اس نے یہودیوں سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے آج ان سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیئے _ آج جتنے کم افراد ان کے ساتھ ہیںاتنے کم افراد تو ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہے ، ایک آدمی کوٹھے پر چڑھ گیا تا کہ سرپر ایک پتھر گرا کر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کام تمام کردے خدا نے یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھادیا اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ان کے برے ارادہ سے مطلع کردیا_
اصحاب نے دیکھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی کام سے ایک طرف چلے گئے، اصحاب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے واپس آنے کے منتظر رہے وہ لوگ بیٹھے رہے مگر آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم واپس نہیں آئے، وہ لوگ اٹھے کہ حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ڈھونڈھا جائے،اتنے میں ایک شخص وارد ہوا لوگوں نے اس سے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ میں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مدینہ میں دیکھا ہے اصحاب مدینہ پہونچے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے چلے آنے کا سبب پوچھا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: خدا نے مجھ کو اس سازش سے آگاہ کردیا تھا جو یہودیوں نے میرے خلاف کی تھی اسلئے میں وہاں سے چلا آیا_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جنگ کےلئے نکلنے کا حکم دیا لشکر اسلام نے چھ روز تک بنی نضیر کے گھروں کا محاصرہ کیا چھ روز کے بعد خوف کی وجہ سے ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا ہم یہاں
سے چلے جانے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہتھیار کے علاوہ اپنے تمام منقولہ سامان اپنے ساتھ لے جائینگے ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کی شرط مان لی وہ اپنا تمام سامان حتی کہ دروازہ بھی اکھاڑ کر اونٹوںپر لاد کرلے گئے_(۱)
۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی
پیمان شکن یہودیوں کے ساتھ رد عمل کے طور پر پیغمبر کا جو برتاؤ ہو تا اس میں شدید ترین برتاو بنی قریظہ کے عہد شکن یہودیوں کے ساتھ روا رکھا _ انہوں نے اس نازک زمانہ میں اپنا معاہدہ توڑا جس زمانہ میں مشرکین قریش نے تمام اسلام مخالف گروہوں سے مل کر بنے ہوئے ایک بڑے لشکر کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کاکام تمام کردینے کے ارادہ سے مدینہ پر حملہ کیا تھا بنی قریظہ کے لوگوں نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیج کر دو ہزار کا لشکرمانگا تا کہ مدینہ کو نیست و نابود کردیں اور اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کردیں_ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان خندق کی حفاظت کررہے تھے ، پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دو افسر اور پانچ سو سپاہیوں کو معین کیا تا کہ شہر کے اندر گشت لگاکر پہرہ دیتے رہیں اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرکے بنی قریظہ کے حملوں کو روکیں اس طرح صدائے تکبیر کو سن کر عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھی رہے گی(۲)
___________________
۱) ( سیرہ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۹ _۲۰۰)_
۲) (مغازی واقدی ج۲ ص ۴۶۰)_
جب مشرکین احزاب مسلمانوں سے ہارگئے اور بڑی بے عزتی سے میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر بنی قریظہ کے یہودیوں کی بار ی آئی_
ابھی جنگ احزاب کی تھکن اترنے بھی نہ پائی تھی کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے لڑنے کی آواز بلند کی اور لشکر اسلام نے فورا ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا_
بنی قریظہ کے یہودیوں نے جب اپنے کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ درخواست کی کہ تمام یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہو تا کہ وہ لوگ بھی اپنے قابل انتقال سامان کو لیکر مدینہ سے چلے جائیں لیکن پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے قبول نہیں فرمایا اس کے بعد وہ اس بات پر تیار ہوئے کہ ان کے ہم پیمان '' سعد ابن معاذ'' جو فیصلہ کریں گے وہ بلاچون و چرا اس کو قبول کرلینگے پیغمبر نے بھی اس بات کو قبول کرلیا_
سعد ابن معاذ کہ جو تیر لگنے کی وجہ سے زخمی تھے، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے قریب لایا گیا آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سعد سے کہا : کہ بنی قریظہ کے یہویوں کے بارے میں فیصلہ کرو_
سعد ، جنہوں نے بنی قریظہ کا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ عہد و پیمان دیکھا تھا اورجن کے پیش نظر جنگ احزاب میں یہودیوں کی عہد شکنی اور خیانت بھی تھی ، انہوں نے حکم دیا :
۱_ ان کے جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے_
۲_ ان کے مال و اسباب کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے_
۳_ ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیا جائے _(۱)
معاہدہ توڑنا وہ بھی ایسے موقع پر جب فریق مقابل کیلئے وہ معاہدہ زندگی کا مسئلہ ہو اس کی سزا یہی ہوسکتی ہے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اس عمل سے بتایا کہ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی عہد و پیمان کو نظر انداز کردے تو پھر اس کاکوئی احترام نہیں رہ جاتا اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی رہتی ہے _
___________________
۱) (مغازی واقدی ج ۲ ص ۵۰۲)_
خلاصہ درس
۱) مدینہ میں بسنے والے یہودیوں نے ممکنہ خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہ کرنے کا معاہدہ کیا _
۲) پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جتنے معاہدے کئے ان سب میں ثابت قدم رہے _ کسی بھی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو نہیں دیکھا گیا _
۳) پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سماجی اور سیاسی معاہدہ توڑے جانے کی صورت میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام نہیں لیا اور معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نہایت سخت برتاو کیا _
۴) پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ان یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا جنہوں نے امن کے مانہ میں معاہدہ توڑا تھا لیکن بنی قریظہ کے یہودیوں کیساتھ جنہوں نے اسلام کے دشمنوں کی مددکی تھی سخت رویہ اختیار کیا اور سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرڈالا ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالایا_
سوالات :
۱_ یہودیوں کے قبیلوں نے کس وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی _
۲_ یہودیوں نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کس طرح کا معاہدہ کیا ؟
۳_ یہودیوں کے سربرآوردہ افراد نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے جو معاہدہ کیا تھا اسکی شرطیں کیا تھیں ؟
۴_ بنی قینقاع کے یہودیوں کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا سلوک تھا ؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے؟
۵_ بنی قریظہ کے یہودیوں نے دشمنان اسلام میں سے کس سے تعاون کیا ؟ ان کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کیا سلوک کیا مختصر طور پر بیان کیجئے؟
ساتواں سبق:
(صبرو استقامت)
صبر و استقامت کامیابی کا سرچشمہ اور مشکلات پر غلبہ کاراز ہیں _یہ خدا کے بے شمارو بے حساب اجر کے آب زلال کے چشمہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ایسی طاقت ہے جس سے تنگ راستوں کو عبور کرنا سہل اور مصیبتوں کا مقابلہ کرنا آسان ہوجاتاہے_
لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری اور بلا و مصیبت پر شکایات کو ترک کرنے کے ہیں اسی طرح ٹھہرجانے اور ثابت قدم رہنے کا نام استقامت ہے(۱)
صبر کے اصطلاحی معنی :
''ضد الجذع الصبر''و هوثبات النفس و عدم اضطرابها فی الشداءد والمصاءب ،بان تقاوم معهابحیث لاتخرجها عن سعة الصدروماکانت
___________________
۱) (فرہنگ معین مادہ صبر واستقامت)_
علیه قبل ذلک عن السرور و الطمانینة '' (۱)
صبرگبھراہت کی ضد ہے در اصل صبریعنی مصاءب و شداءد میں نفس کے مطمئن رہنے اور ان کے مقابلہ میں اسطرح ڈٹے رہناہے کہ پیشانی پرشکن تک نہ آنے پائے_
استقامت کے اصطلاحی معنی اس طرح بیان کئے گئے ہیں''و هی الوفاء بالعهود کلها و ملازمه الصراط المستقیم برعایة حدالتوسط فی کل الامور من الطعام والشراب واللباس و فی کل امر دینی و دنیوی'' (۲) تمام معاہدوں سے وفاداری اور ہمیشہ صراط مستقیم کو اس طرح سے اپنائے رہنا کہ کھانے، پینے لباس اور تمام دینی و دنیوی امور میں میانہ روی ہو اس کا نام صبر و استقامت ہے_
خداوند عالم نے صبر کے نتاءج اور اس کی قدر و قیمت بتادینے کے بعد اپنےپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے اس بات کی خواہش کی ہے کہ وہ بھی دوسرے نبیوں کی طرح صبر اختیار کریں_ ارشاد ہے :
( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۳)
آپ بھی اس طرح صبر کریں جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _
( فاصبر ان وعد الله حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون ) (۴)
آپ صبر کریں، بے شک خدا کا وعدہ حق ہے اور وہ لوگ جو یقین کرنے والے نہیں
___________________
۱) (جامع السعادت ج۳ص۲۸۰)_
۲) (تعریفات جرجانی منقول از لغت نامہ دہخدا مادہ صبر)_
۳) (احقاف ۳۵)_
۴) روم ۶۰_
ہیں وہ آپ کو کمزور متزلزل نہیں کرسکتے_
( واصبر لحکم ربک فانک باعیننا ) (۱)
آپ خدا کے حکم کے مطابق صبر کریں، بے شک آپ ہمارے منظور نظر ہیں_
( فاصبر صبراجمیلاً ) (۲)
آپ صبر جمیل کریں_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو دوسرے اولوالعزم پیغمبروں ہی کی طرح صبر کا حکم ہے اس لئے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے طے کرنا ممکن نہیں ہے _ جیسا کہ دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ صبر نصرت خدا ہے اور دشمنوں کی طرف سے جو رسول خدا کو کمزور اور متزلزل قرار دیا جارہے ہے اسکا کوئی اثر نہیں لینا چاہیئے_
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھی تمام مصیبتوں، رسالت کی مشکلوں اور حادثات زندگی میں صبر سے کام لیا اور صراطمستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ آپ نے پیغام الہی کی تبلیغ کے راستہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹاکر اپنے لئے عبادت اور اطاعت کے پر مشقت راستوں کو ہموار کرکے بشریت کی ہدایت کا راستہ کھول دیا_
___________________
۱) طور ۴۸_
۲) معارج ۵_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم صابر اور کامیاب
حادثات روزگار کی تیز ہوا ، جانکاہ مصاءب کے گرداب اور سیاہ دل مخالفوں کی تکذیب کے مقابل تمام پیغمبروں کا جو طریقہ تھا اسی کا نام صبر ہے _
( و لقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ماکذبوا و اوذوا حتی آتاهم نصرنا ) (۱)
بیشک آپ سے پہلے(پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم سے ) جو رسول بھیجے گئے ان کو جھٹلایا گیا ان لوگوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہونچائے جانے کے بعد صبر کیا یہاں تک کہ ہماری نصرت ان تک پہونچی_
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی تمام پیغمبروںکی طرح اپنی رسالت کی تبلیغ کے لئے پروردگار کی طرف سے صبر پر مامور تھے_
( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۲)
صبر کیجئے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _
اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہ تکلیفیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اٹھانی پڑیں، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود فرماتے ہیں:
( ما اوذی نبی مثل ما اوذیت فی الله ) (۳)
___________________
۱) انعام ۳۴_
۲) احقاف ۳۵_
۳) میزان الحکم ج۱ ص۸۸_
راہ خدا میں کسی پیغمبر کو اتنی اذیت نہیں پہونچی جتنی اذیت مجھے پہونچنی _
آخر کار آیہ کریمہ ( ان مع العسر یسرا ) (۱) (ہر سختی کے بعد آسانی ) کے مطابق رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فتح مکہ کے دن اپنے صبر کے نتاءج و آثار دیکھ لئے وہ دن جس کو قرآن اپنے لفظوں میں اس طرح یاد کرتاہے ( اذا جاء نصر الله والفتح و رایت الناس یدخلون فی دین الله افواجا فسبح بحمد ربک و استغفره انه کان توابا ) (۲)
جس دن خدا کی مدد پہونچی اور کامیابی حاصل ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ دین خدامیںداخل ہوئے چلے جارہے ہیں پس آپ حمدکے ساتھ اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے اور اسکی درگاہ میں استغفار کیجئے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے _
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم صبر کے سایہ میں کامیابی کی منزل تک پہنچے' کعبہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوگیا، بت پرستی ختم ہوئی اور پرچم توحید لہرایا، یہ کامیابیاں اس صبر کا نتیجہ تھیں جو حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے راہ خدا میں اختیار کیا تھا_
___________________
۱) انشراح ۶_
۲) سورہ النصر_
مختلف قسم کی بہت سی مخالفتیں اور اذیتیں
کفار و مشرکین نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو آزار پہنچانے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے، کبھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ساحرکاذب اور کاہن کہا گیا_زبان کے ذریعہ زخم پہونچاکر آپ کے دل کو تکلیف پہونچائی گئی، کبھی جنگ برپا کرنے، دہشت گردی کے ذریعہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ختم کردینے کیلئے میدان میں لوگ اتر آئے لیکن صابر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کی بنائی ہوئی سازش کو نقش بر آپ کردیا اور کامیابی کے ساتھ اپنے الہی فریضہ کو پورا کرتے رہے_
زبانوں کے زخم
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تعلیمات کی روشنی مدہم کرنے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اذیت پہچا نے کے لئے مشرکین نے جو شیطانی حربے اختیار کئے ان میں سے ایک حربہ زبان کے ذریعہ زخم لگانا بھی تھا_
قرآن کریم نے مخالفین رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی آزار پہچانے والی بعض باتوں کو نقل کیا ہے ارشاد ہے:
( و قال الذین کفروا هل ندلکم علی رجل ینبءکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی الله کذبا ام به جنة ) (۱)
اور کافروں نے (مزاق اڑاتے ہوئے) کہا : کیا تم کو ہم ایسے شخص کا پتہ بنائیں جو یہ
___________________
۱) (سورہ صبا ۸،۷)
کہتاہے کہ تمہارے مرنے اور جسم کے ذرات کے بکھرجانے کے بعد تم کو زندہ کیا جائیگا کیا یہ شخص جان بوجھ کر خدا پر جھوٹا الزام لگاتاہے یا جنون اسکو اس بات پر مجبور کرتاہے_
( و یقولون اءنا لتارکوا آلهتنا لشاعر مجنون ) (۱)
وہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے خداؤں کو ایک دیوانہ شاعر کے کہنے کی بنا پر چھوڑ دیں_
( فذکر فما انت بنعمت ربک بکاهن و لا مجنون ام یقولون شاعر نتربص به ریب المنون ) (۲)
بس تم یاد کرو کہ تم خدا کے فضل و نعمت سے نہ کاہن ہو اور نہ دیوانہ ہو _یا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ شاعر ہے تو ہم ان کی موت کے انتظار میں ہیں_
رسول اکرم کے پاس آکر چند مشرکین کے زبان سے ایذاء پہچا نے کے واقعہ کو امیرالمومنین عليهالسلام نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں :
'' اس دن جس دن قریش کا ایک وفد حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آیا تو میں آپ کے پاس موجود تھا میں نے ان کی گفتگو سنی انہوں نے کہا : اے محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم آپ ایسی چیز کا دعوی کرتے ہیں جس کا دعوی نہ آپ کے آباء و اجداد نے کیا تھا اور نہ آپ کے خاندان نے اب جو ہم
___________________
۱) (صافات ۳۶)
۲) (طور ۲۹_۳۱)
کہتے ہیں وہ آپ کر دکھایئےاگر آپ نے وہ کردیا اور ہم نے دیکھ لیا تو ہم سمجھ جائیں گے کہ آپ سچ مچ پیغمبر اور خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور اگر آپ اس کو نہ کرسکے تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں _
رسول خدا نے فرمایا : کہو کیا کرنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس درخت کو آپ اپنے پاس بلالیں اور یہ درخت جڑ سے اگھڑ کر آپ کے پاس آجائے حضرت نے فرمایا : خدا ہر کام کی قدرت رکھتا ہے لیکن اگر میں تمہاری یہ خواہش پوری کردوں تو کیا تم ایمان لے آؤگے اور حق کی گواہی دوگے ؟ سب نے کہا ''ہاں'' آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : اب تم نے جو کہاہے وہ میں کردکھاتاہوں لیکن مجھ کو اس بات کا اطمینان ہے کہ تم اس کے باوجود اسلام اور سچے قانون کو نہیں قبول کروگے_
ان لوگوں نے جس چیز کی فرمائشے کی تھی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے وہ کردکھائی لیکن انہوں نے اپنے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف کہا نہیں یہ جادوگر اور چھوٹا ہے ، جادوگری میں یہ کتنا ہوشیار اور تیز ہے (معاذ اللہ)_
ان تکلیف دہ باتوں سے اگر چہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو قبلی طور پر رنج ہوا مگر حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے صبر کیا اور مخالفین کی غلط باتوں کے جواب میں سوائے حق کے زبان پر کچھ نہ لائے_
___________________
۱) (نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۴)_
خلاصہ درس
۱) صبر اور استقامت کامیابی کا سرمایہ اور مشکلات پر غلبہ کا راز ہے _
۲) لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری ، بلا اور شداءد پر شکایت نہ کرنے کے ہیں_ ا ور استقامت کے معنی ثبات قدم کے ہیں _
۳ ) صبر کے اصطلاحی معنی ہیں ، مصیبتوں اور نامناسب حالات میں ثبات نفس، شجاعت اور انکے مقابل یوں ڈٹ جانا کہ سعہ صدر ختم نہ ہو اور سابقہ وقار و خوش حالی زاءل نہ ہو_
۴)پیغمبر اعظم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا دوسرے اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر پر مامور ہونا اس بات کا ظاہر کرتاہے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے ناممکن ہے _
۵ ) دوسرے پیغمبروں کی طرح پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی تبلیغ رسالت میں خدا کی طرف سے صبر پر مامور تھے_ اور اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہحضور صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بھی پیغمبر کو خدا کے راستہ میں میرے جتنی تکلیف نہیں دی گئی _
۶) مشکرین نے پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اذیت پہونچانے اور ان کی تعلیمات کی اساس کو متزلزل کرنے کیلئے جو حربے استعمال کئے ان میں سے زبان کا زخم بھی تھا_ناروا گفتگواگر چہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دل کو تکلیف پہونچاتی تھی لیکن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کے حکم سے صبر کرتے اور مخالفین کی بدزبانی کے جواب میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتے تھے_
سوالات
۱_ صبر کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟
۲_ صبر اور استقامت کا رابط بیان کیجئے؟
۳_ استقامت کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟
۴_ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کو صبر کا حکم کیوں دیا گیا تھا؟
۵_ مشرکین کی بدزبانی کے سلسلہ کی ایک آیت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے برتاؤ کو بیان کیجئے_
آٹھواں سبق:
(جسمانی اذیت)
زبان کا زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب کو بہت سی جسمانی اذیتیں پہنچا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو راہ حق سے ہٹا دینا چاہتے تھے ، منقول ہے کہ مشرکین قریش نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو بہت ستایا ان میں سب سے بڑا ظالم آپکا چچا ابولہب تھا ایک دن جب پیغمبر حجرے میں تشریف فرماتھے اسوقت مشرکین نے ایک گوسفند کے رحم کو ، جس سے بچہ نکالا جاچکا تھا، چند اوباشوں کے ذریعہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سرپر ڈلو دیا_(۱)
ابولہب نے پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اتنی اذیت پہنچا کہ خدا کی لعنت اور نفرین کا مستحق قرار دیا سورہ تبت اسکے اور اسکی بیوی (حمالة الحطب _ ام جمیلہ) کے بارے میں نازل ہوا :
( تبت یدا ابی لهب و تب ما اغنی عنه ماله و ما کسب سیصلی نارا ذات لهب و امراءته حمالة الحطب فی جیدها حبل من
___________________
۱) (زندگانی چہاردہ معصوم ترجمہ اعلام الوری ص ۶۴)_
مسد ) (۱)
ابولہب ( جو ہمیشہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اذیت پہونچا تا تھا ) اسکا ستیاناس ہوا اس کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے اس نے جو مال و اسباب ( اسلام کو مٹانے کیلئے) جمع کیا تھا اس نے ابولہب کو ہلاکت سے نہیں بچایا، وہ جلد ہی جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں پہنچ جائیگا اور اسکی بیوی (ام جمیلہ) دوزخ کا ایندھن بنے گی اس حالت میں کہ (نہایت ذلت کے ساتھ) لیف خرما کی بٹی ہوئے رسیاں اس کی گردن میں ہوں گے _
ابولہب کی بیوی رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو بہت اذیت پہنچا تی تھی قرآن نے اس کو'' حمالة الحطب'' کے نام سے یاد کیا ہے _
ابن عباس نے قرآن مجید کے بیان کئے ہوئے اس نام کی دلیل میں فرمایا '' وہ لوگوں کے درمیان چغلی کیا کرتی تھی اور دشمنی پیدا کردیتی تھی اس طرح آتش جنگ بھڑک اٹھتی تھی جیسے کہ ایندھن کی آگ بھڑکائی اور جلائی جاتی ہے لہذا اس نمامی ( چغلی) کی صفت کو ایندھن کا نام دے دیا گیا(۲) _
منقول ہے کہ وہ ملعونہ خس و خاشاک اور خاردار جھاڑیاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے راستہ میں ڈال دیتی تھی تا کہ جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز کیلئے نکلیں تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پیروں سے وہ الجھ جائیں اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پیر زخمی ہوجائیں(۳)
___________________
۱) (سورہ تبت)_
۲) ( مجمع البیان ج ۲۷)_
۳) (مجمع البیان ۲۷)_
مشرکین کے ستانے اور اذیت پہچانے کے واقعات میں سے ایک واقعہ طاءف میں قبیلہ '' بنی ثقیف'' کا بھی ہے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم ہی سے منقول ہے کہ میں نے عبدیالنیل ، حبیب اور مسعود بن عمران تینوں بھائیوں سے مقالات کی کہ جو قبیلہ بنی ثقیف کے بزرگان میں سے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پیغمبر ہیں تو میں نے گویا کعبہ کو چرایا ، دوسرے نے کہا کہ کیا خدا عاجز تھا کہ اس نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو بھیج دیا ، اس کو ایسے کو بھیجنا چاہئے تھا جس کے پاس طاقت اور قدرت ہو تیسرے نے کہاخدا کی قسم میں اس کے بعد اب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے بات نہیں کروں گا اور پھر اس نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا مذاق اڑایا اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جو اسلام کی دعوت دی تھی اسے لوگوں میں پھیلا دیا_
جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم طاءف سے نکلنے لگے تو وہاں کے ذلیل اور اوباش افراد ان تینوں کے بھڑکانے سے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور انہوںنے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر پتھر برسائے جسکی وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پائے مبارک مجروح ہوگئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس حال میں وہاں سے نکلے کر آپ کے پاؤں سے خون جاری تھا_(۱)
مندرجہ ذیل واقعہ بھی رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کمال صبر کا بہترین نمونہ ہے '' منیب ابن مدرک'' نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا '' جاہلیت کے زمانے میں '' میں نے رسول خدا کو دیکھا کہ آپ'' یا ایها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا'' (اے لوگو تم یہ کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تا کہ تم نجات پاجاؤ) کی تبلیغ کررہے تھے کہ ایک ملعون کافر نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چہرہ اقدس پر ایک طمانچہ مارا، کسی نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سر اور چہرہ پر خاک ڈالی، کسی نے آپ کو دشنام دیا میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی بچی ایک پانی کا ظرف لیکر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف بڑھی آپ نے اپنا ہاتھ اور چہرہ دھویا پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : صبر کرو اور اگر کوئی تمہارے باپ رسول خدا کو رسوا کرے یاستائے تو تم غمگین نہ ہونا _(۲)
میدان جنگ میں صبر کا مظاہرہ
جن جگہوں پر صبر کا بڑا گہرا اثر پڑتاہے ان میں سے ایک میدان جنگ و کارزار بھی ہے _ صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس لشکر اور اسلحہ کفار سے کم تھا لیکن خدا کی مدد اور رسول خدا کی فکر سلیم کی بناپر صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں فتح و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں _ مسلسل پیش آنے والی جنگو ں میں آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے شرکت کی اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے حوصلوں میں کبھی بھی شکست کے آثار نظر نہیں آئے_
جنگ احد ابتدائے اسلام کی صبر آزما اور سخت جنگ تھی جب یہ جنگ اپنے عروج پر تھی اسوقت اصحاب نے فرار کیا کچھ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے_چنانچہ چند افراد کے علاوہ اور
___________________
۱) ( حلیة الابرار ج۱ ص ۱۷۷)_
۲) ( میزان الحکمہ ج۹ ص ۶۷۱)_
کوئی دفاع کرنیوالا نہیں تھا لیکن پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے صبر و استقامت اور علی عليهالسلام کی شجاعت نے دشمن کو جنگ سے روک دیا اس جنگ میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چہرہ اور دہن مبارک سے خون جاری تھا، ابن قمیءہ نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ایک تیر مارا جو آپکے ہاتھ پر آکر لگا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی ، عتبہ ابن ابی وقاص نے ایک ایسی ضربت لگائی جس سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دہن اقدس سے خون بہنے لگا عبداللہ ابن ابی شہاب نے زمین سے ایک پتھراٹھاکر آپ کے فرق اطہر پر مارا(۱) حضرت امیر المؤمنین عليهالسلام پیغمبر کی شجاعت اور صبر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جب جنگ اپنے شباب پر ہوتی تھی اوردونوں طرف سے گھمسان کارن پڑتا تھا تو ہم رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس پناہ ڈھونڈھتے ہوئے پہنچتے تھے دشمنوں سے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جتنا قریب ہوتے تھے اتنا قریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا _(۱)
میدان جنگ میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے صبر کی بناپر نصرت الہی سایہ فگن رہتی تھی_قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:
'' ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین'' (۱)
اگر تم میں سے بیس افراد ایسے ہوں جو صبر کے زیور سے آراستہ ہوں تو دو سو افراد پر غالب آسکتے ہیں _
___________________
۱) ( زندگانی چہاردہ معصوم ص ۱۱۹)_
۲) ( میزان الحکم ج ۹ ص ۶۶۲)_
۳) (انفال۶۵) _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی استقامت
استقامت اور پائیداری پسندیدہ صفات ہیں پیغمبر ختمی مرتبت، میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں اپنی سخت ذمہ داریوں کو پورا کرنے (شرک او ر کفر کا خاتمہ) اور معاشرہ میں آئین توحید کو راءج کرنے کے سلسلہ میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خدا کی طرف سے ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا تھا_
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ثابت قدم اور اس حکم کی پابندی کا یہ حال تھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اندر بڑھاپے کے آثار بہت جلد نظر آنے لگے جب کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اتنی جلدی کیسے بوڑھے ہوگئے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
''شیبتنی هود والواقعه ...''
مجھے سورہ ہود اور واقعہ نے بوڑھا کردیا _
ابن عباس بیان فرماتے ہیں ( فاستقم کما امرت ) (۱) سے زیادہ سخت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم پر کسی آیت کا نزول نہیں تھا _
جو سختیاں تبلیغ کی راہ میں انبیاء کرام برداشت کرتے رہے ہیں سورہ ہود کے کچھ مضامین میں ان سختیوں کو بیان کیا گیا ہے اور سورہ واقعہ میں مرنے کے بعد کی دشواریوں کا ذکر ہے اسی لیے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم ان دونوں سوروں کے مضامین پر بہت زیادہ غور فرمایا کرتے تھے_
___________________
۱) (المیزان ج ۱۱ ص ۶۶)_
کفار و مشرکین کی سازش، دھمکی اور لالچ کے سامنے جس ثبات قدم کا آپ نے مظاہرہ فرمایا، مندرہ ذیل سطروں میں اس کو بیان کیا جارہاہے_
کفار و مشرکین سے عدم موافقت
مکہ کے کفار و مشرکین نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے موافقت کی بہت کوشش کی لیکن ان کی انتھک کوشش کے باوجود رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کوئی ایسا عمل نہیں انجام دیا جس سے آپ کی کمزوری ثابت ہو، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے عقاءد کا برملا اظہار کیا اور بتوں یا بت پرستوں کے خلاف جنگ سے کبھی بھی منہ نہیں موڑا_قرآن کریم نے کفار و مشرکین کے نظریہ کو پیش کرتے ہوئے اپنے نبی صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کہا :
( فلا تطع المکذبین و ذوالوتدهن فیدهنون ) (۱)
آپ جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر آپ نرم پڑجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں_
مشرکین کی ساز باز اور موافقت کی کوشش کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتاہے_
___________________
۱) (القلم ۸ _ ۹)_
قبیلہ '' ثقیف'' کا ایک گروہ معاہدہ کرنے کیلئے مدینہ سے مکہ آیا ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی جو شراءط رکھیں تو اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ان سے نماز معاف کردی جائے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کی اس خواہش کو رد کردیا اور فرمایا'' جس دین میں نماز نہ ہو وہ بیکار ہے'' نیز انہوں نے یہ کہا کہ ان کا بتخانہ تین سال تک برقرار رکھا جائے اور انکے اس بڑے بت کی پرستش کی چھوٹ دی جائے جسکا نام (لات) ہے _ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ درخواست رد کردی ،آخر میںانہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم کو خود ہمارے ہی ہاتھوں سے بتوں کے توڑنے کا حکم نہ دیا جائےپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ شرط منظور کرلی اور کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ تم ان بتوں کو توڑ دو _(۱)
دھمکی اور لالچ
دھمکی اور لالچ یہ ایسے خوفناک اور ہوس انگیزہتھیار تھے جسے کفار نے انبیاء کرام خصوصاً پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کو روکنے کیلئے استعمال کئے_مشرکین مکہ نے جب یہ دیکھ لیا کہ رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے عقاءد پر ثابت قدم رہیں گے اور اس کے برملا اظہار سے باز نہیں آئیں گے تو ان لوگوں نے آپ کو ڈرانے اور لالچ دینے کی پلاننگ تیار کی اس غرض سے وہ ایک وفد کی صورت میں جناب ابوطالب عليهالسلام کی خدمت میں پہنچے اور کہا '' آپ کا بھتیجا،ہمارے
___________________
۱) ( فروغ ابدیت ج۲ ص ۷۹۷ ،۷۹۹)_
خداؤں کو برا کہتاہے ہمارے قانون کی برائی کرتاہے ہمارے افکار و عقاءد کا مذاق اڑاتا اور ہمارے آباء اور اجداد کو گمراہ سمجھتاہے لہذا تو آپ ان کو اس کام سے روک دیجئے یا انھیں ہمارے سپرد کردیجئے اور ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیجئے_(۱)
بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھاہے کہ اگر ان کو مال چاہیئے تو ہم مال دینگے اگر کوئی خوبصورت عورت چاہئے تو ہم اس کے لئے حاضر ہیں_ جب ابوطالب نے یہ پیغام رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم تک پہنچا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
'' والله لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک هذاالامر حتی یظهره الله او اهلک فیه ، ما ترکته'' (۲)
اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھدیں اور کہیں کہ اس کام سے باز آجاوں تو خدا کی قسم میں اس سے باز نہیں آؤنگا، یہاں تک کہ خدا اس دین کو غالب کردے یا میں اس راہ میں قتل کردیا جاؤں_
ابوجہل کی دھمکی
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے شدیدترین دشمنوں میں سے ایک ابوجہل بھی تھا اس نے ایک خط کے ذریعہ دھمکی دیتے ہوئے کہا '' تمہارے خیالات نے تمہارے لیے سرزمین مکہ کو تنگ
___________________
۱) (فروغ ابدیت ص ۷۹۷، ۷۹۹)_
۲) (سیرہ ابن ہشام ج۱ از ص ۲۸۳ تا ۲۸۵)_
کردیا اور تم دربدر ہو کر مدینہ پہنچے جب تک تمہارے ذہن و دماغ میں ایسے خیالات پرورش پاتے رہیں گے اس وقت تک تم اسی طرح دربدر رہوگے اور یہ خیالات تمہیں غلط کاموں پر آمادہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ تم مدینہ والوں کو بھی فاسد کرڈالوگے اور اس آگ میں مدینہ والے بھی جل جائیں گے جس کے شعلے تم نے بھڑکارکھے ہیں ، میری آنکھوں کے سامنے تمہارا بس یہ نتیجہ ہے کہ قریش تمہارے برپا کئے ہوئے فتنوں کو دبانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ کفار مدینہ اور وہ لوگ ان کی مدد کریں گے جن کے دل تمہاری دشمنی سے لبریز ہونگے اگر چہ آج وہ تم سے ڈرکر تمہاری مدد اور پشت پناہی کررہے ہیں لیکن جب وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیںگے کہ تمہارے ہلاک ہونے سے وہ بھی ہلا ک ہوجائیں گے اورا نکے بال بچے تمہارے فقر اور مجبوری سے لاچار اور فقیر ہوجائیں گے تو وہ تمہاری مدد سے ہاتھ اٹھالیں گے_ وہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ دشمن تم پر فتحیاب ہونے کے بعد زبردستی ان کی سرزمین میں گھس آئیں گے اور پھر وہ دشمن ، تمہارے دوست اور دشمن میں کوئی امتیاز نہیں کریں گے اور ان سب کو تباہ و برباد کرڈالیں گے ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیںگے _ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس نے تم کو یہ دھمکی دی ہے وہ حملہ بھی کرسکتاہے اور جس نے بات بڑے واضح انداز میں کہی ہے اس نے پیغام پہچا نے میں کوتاہی نہیں کی (معاذاللہ)
یہ خط آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب پاس اس وقت پہونچا جب بنی اسرائیل کے یہودی مدینہ کے باہر جمع تھے، اس لئے کہ ابوجہل نے اپنے قاصد کو یہ حکم دیا تھا کہ یہ خط
ایسے ہی موقع پر پڑھ کر سنایا جائے کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ماننے والوں پر خوف طاہری ہوجائے اور کافروں کی جراءت میں اضافہ ہو_
ابوجہل کے قاصد سے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' کیا تیری بات ختم ہوگئی ؟ کیا تو نے پیغام پہنچا دیا اس نے کہا ہاں ، آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' تو جواب بھی سنتا جا جس طرح ابوجہل مجھے دھمکیاں دیتاہے اسی طرح خدا میری مدد اور کامیابی کاوعدہ کرتاہے، خدا کی دی ہوئی خبر میرے لئے زیادہ مناسب اور اچھی ہے جب خدا، محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نصرت کیلئے تیار ہے تو پھر کسی کے غصہ اور بے وفائی سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا_
تم ابوجہل سے جاکر کہہ دینا کہ شیطان نے جو تعلیم تمہیں دی تھی ، وہی باتیں تم نے مجھے کہی اور میں جواب میں وہ کہہ رہاہوں جو خدا نے مجھ سے کہاہے انیس دن بعد ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی اور تم میرے ایک کمزور مددگار کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے ، تم کو عتبہ و شیبہ اور ولید کو قتل کیا جائیگا، نیز قریش کے فلاں فلاں افراد بھی بہت بری طرح قتل کرکے بدر کے کنویں میں پھینک دئے جائیں گے تمہارے لشکر کے ستر (۷۰) آدمیوں کو ہم قتل کریں گے اور ۱۷۰ افراد کو اسیر بنائیں گے_(۱)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے استقامت اور پائیداری کے ساتھ اس طرح زندگی گذاری جس طرح خدا چاہتا تھا اور کسی بھی طاقتور سے دین کے معاملہ میں سازش نہیں کی _
___________________
۱)بحارالانوار ج ۱۷ ص ۳۴۳_
خلاصہ درس
۱)زبان سے زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین ، رسولخدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھیوں کو بہت زیادہ جسمانی اذیتیں بھی پہنچا تے تھے لیکن آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں پرصبر فرماتے تھے_
۲) جن مقامات پر صبر کی بڑی اہمیت ہے ان میں سے ایک میدان جنگ بھی ہے صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں مسلمانوں کا لشکر اور جنگی ساز و سامان کفار قریش کے لشکر اور اسلحوں سے بہت ہی کم تھا لیکن پھر بھی خدا کی تائید اور رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بہترین فکر کے ساتھ صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں مسلمانوں کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئی_
۳ ) استقامت اور پاییداری اچھی صفتیں ہیں اور رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں_
۴ ) کفار و مشرکین نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے دین کے معاملہ میں موافقت کرنے کی بڑی کوششیں کی لیکن آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کسی طرح کی نرمی یا اپنے موقف میں لچک کا اظہار نہیں فرمایا _ نیز بتوں اور بت پرستوں سے ہمیشہ جنگ کرتے رہے_
۵) دھمکی اور لالچ دو ایسے حربہ تھے جو کفار نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے حوصلہ کو پست کرنے کیلئے استعمال کئے لیکن رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ثابت قدمی میں کوئی چیز جنبش نہ لاسکی_
سوالات :
۱_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پہنچائی جانے والی جسمانی اذیت کا ایک نمونہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے رد عمل کے ساتھ بیان فرمایئے
۲_ میدان جنگ میں صبر کا کیا اثر ہوتاہے؟
۳_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا؟
۴_ دھمکی اور لالچ کے مقابل حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کس رد عمل کا اظہار فرمایا؟
۵_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنی طرف سے کسی نرمی یا دین کے معاملہ میں کسی موافقت کو کیوں قبول نہیں کیا ؟ اس سلسلہ کی آیت بیان کرکے توضیح فرمائیں؟
نواں سبق:
(پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم رحمت)
انسانیت کے کمال کی جو اعلی ترین مثال ہوسکتی ہے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اس کے سب سے بڑے مصداق اور انسانی فضاءل و کمالات کا اعلی نمونہ تھے ، اخلاق الہی کا مظہر اور ( انک لعلی خلق عظیم ) (۱) کے افتخارسے سرفراز تھے_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے فضاءل کا بلند پہلو یہ ہے کہ خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو '' رؤف و رحیم'' کے لقب سے یاد فرمایاہے:
( لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین روف رحیم ) (۲)
رسول جو تمہاری صنف سے ہے فرط محبت کی بناپر تمہاری تکلیف ان کے اوپر بہت گراں ہے _ وہ تمہاری نجات پر حریص ہے اور مؤمنین پر رؤف و مہربان ہے_
___________________
۱) ( توبہ ۱۲۸)_
۲) (قلم ۴)_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نبی رحمت ہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے فیض رحمت سے نہ صرف مؤمنین اور محبین بلکہ سخت ترین دشمن بھی بہرہ مند ہوتے رہے ، اس لئے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ سبق اپنے پروردگار سے سیکھا تھا_
( و ما ارسلنک الا رحمة للعالمین ) (۱)
ہم نے آپ کو عالمین کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے_
( فاعف عنهم واصفحه ) (۲)
ان کو معاف کردیجئے او ردرگذر کیجئے_
آپ کریمانہ اخلاق اور درگذر کی صفت سے مالامال تھے، محض ناواقف دوستوں اور دشمنوں کی اذیتوں او ر برے سلوک کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم معاف ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی یاد بھی دل سے نکال دیتے تھے ، دل کے اندر بغض اور کینہ نہیں رکھتے تھے _ کہ جس سے اقتدار حاصل ہونے کے بعداس کے ساتھ انتقامی کاروائی کریں ، خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو وسعت قلب سے نوازا تھا(الم نشرح لک صدرک )اے رسول کیا ہم نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو شرح صدر کی نعمت نہیں عطا کی _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ایسے کریمانہ اخلاق اور مہربان دل کے مالک تھے کہ ناواقف اور خودغرض دشمنوں کی گستاخیوں اور جسارتوں کا انتقام لینے کی کبھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فکر نہیں کی ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بلند اخلاق اور وسعت قلبی نے قرابت داروں ، دوستوں اور سخت ترین دشمنوں کو بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا گرویدہ
___________________
۱)(ماءدہ ۱۳۱)_
۲)(انبیاء ۱۰۷)_
بنا دیا _
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، اگر کوئی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو تکلیف بھی پہنچا تو آپ اسے معاف فرمادیتے ہاں اگر کوئی حکم خدا کی ہتک حرمت کرتا تھا تو اس وقت حد الہی جاری فرماتے تھے_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کبھی کسی کو دشنام نہیں دیا، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کسی خدمت گار کو یا کسی بیوی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہاتھ راہ خدا میں جہاد کے لئے صرف کفار پر اٹھے_(۱)
جنگ احد میں جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرہ مبارک پرزخم لگے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب کو اس کا بہت دکھ ہوا انہوں نے درخواست کی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دشمنوں اور کافروں کیلئے بد دعا اور نفرین کریں، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : میں لعن اور نفرین کے لئے نہیں مبعوث کیاگیاہوں، مجھے تو رحمت بناکر بھیجا گیاہے ، میں ان کیلئے دعا کرتاہوں کہ خدا انکی ہدایت کرے اس لئے کہ یہ لوگ ناواقف ہیں(۲)
ان مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی ان کے لئے دست دعا بلند کرنا اور خدا سے عذاب کی بدلے ہدایت مانگنا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عفو و رحمت،حسن اخلاق اور کمال کی دلیل ہے_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عمومی اخلاق کا یہ نمونہ تھا، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود
___________________
۱) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۸)_
۲) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۹)_
ہیں اب یہ کہ سختیوں کے جھیلنے کے بعد عفو اور درگزر کا انسانی اخلاق پر کیا اثر پڑتاہے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ عليهالسلام کی زندگی کے عفو و درگزر کے حوالے سے چند واقعات کی مدد سے ہم اس کی طرف اشارہ کریں گے البتہ ہمیں اعتراف ہے کہ ان عظیم الہی آیات پر مکمل تجزیہ کرنے سے ہم عاجز ہیں یہ کام ہم فقط اس لیے کررہے ہیںکہ ہمارے نفس پر اس کا اثر پڑے اور وہ واقعات ہماری ہدایت کا چراغ بن جائیں_
عفو، کمال کا پیش خیمہ
عفو کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے اندر کمال کا جوہر پیدا کردیتاہے، اس لئے کہ عفو کرنے والا جہاد اکبر کی منزل میں ہوتاہے، وہ اپنے نفس سے جہاد کرتاہے، اس کا نفس انتقام کیلئے آمادہ کرتاہے، اس کے غیظ و غضب کی آگ بھڑکاتاہے، لیکن معاف کرنے والا انسان ایسی خواہشوں سے نبرد آزمائی رکتارہتاہے اور پھر خودسازی اور کمال روح کی زمین ہموار ہوجاتی ہے، اس لئے عقل و نفس کی جنگ میں اگر انسان شرع اور عقل کو حاکم بنالے تو یہ انسان کے اندر کمال پیدا کرنے کے ضامن ہیں_
عفو میںدنیا اور آخرت کی عزت
عفو اور درگذر کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں انسان کی عزت میں اضافہ
کرتاہے_
عزت دنیا
شیطان ، انسان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرتاہے کہ اگر تم انتقام نہیں لوگے تو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاوگے، دوسرے شیر بن جائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے عفو اور درگذر انسان کی قدر و منزلت کو بڑھانے اور اس کی شخصیت کو بلند کرنے کا سبب ہے ، خاص طور پر اگر توانائی اور طاقت کی موجودگی میں کسی کو معاف کردیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ موثر ہے ، اگر عفو کو ترک کردیا جائے تو ہوسکتاہے کہ لڑائی جھگڑا ہوجائے اور پھر بات عدالت تک پہنچے کبھی کبھی تو ایسا ابھی ہوتاہے کہ ترک عفوانسان کی جان، مال عزت اور آبرو کے جانے کا باعث بن جاتاہے اور ان تمام باتوں سے انسان کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے _
کلام رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم
مندرجہ بالا حقائق کی طرف پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ عليهالسلام نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایاہے_
''عن ابی عبدالله قال:قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم علیکم بالعفو فان العفو لا یزید العبد الا عزا فتعافوا یعزکم الله'' (۱)
___________________
۱) (مرآة العقول ج۸ ص ۱۹۴)_
امام جعفر صادق عليهالسلام سے منقول ہے کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: تم عفو اور درگذر سے کام لیا کرو کیوں کہ عفو فقط انسان کی عزت میں اضافہ کرتاہے لہذا تم عفو کیا کرو کہ خدا تمہیں عزت والا بنادے_
''عن ابی عبدالله قال: قال رسول الله فی خطبته الا اخبرکم بخیر خلایق الدنیا والآخرة ؟ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک والاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک'' (۱)
امام جعفر صادق عليهالسلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: کیا میں تم کو اس بہترین اخلاق کی خبردوں جو دنیا و آخرت دونوں میں نفع بخش ہے ؟ تو سنو، جس نے تمہارے اوپر ظلم کیا اس کو معاف کردینا ، ان رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جنہوں نے تمہارے ساتھ قطع رحمی کی ، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا جو تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے، اور اسکو عطا کرنا جس نے تم کو محروم کردیا ہو یہ بہترین اخلاق ہیں _
آخرت کی عزت
عفو و درگذر میں انسان کی اخروی عزت بھی پوشیدہ ہے کہ اس سے معرفت پروردگار حاصل ہوتی ہے_
___________________
۱) ( مرآة العقول ج۸ ص۱۹۲)_
قرآن کہتاہے :
( والیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر الله لکم والله غفور رحیم ) (۱)
مؤمنین کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر عفو اور درگذر کی صفت پیدا کریں ، کیا تم اس بات کو دوست نہیں رکھتے کہ خدا تم کو بخش دے، خدا بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے _
( و سارعوا الی مغفرة من ربکم و جنةعرضها السموات والارض اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین ) (۲)
تم اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جس کو اللہ نے پرہیز گار بندوں کے لئے مہیا کررکھاہے، ان پرہیزگاروں کیلئے جو اپنے مال کو وسعت اور جنگ کے عالم میں فقراء پر خرچ کرتے اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیک اعمال کرنے والوں کو دوست رکھتاہے_
___________________
۱) (نور۲۲)_
۲) (آل عمران ۱۲۴، ۱۲۳)_
رسول خدا کی عزت
عفو و رحمت جیسی تمام صفات کمال کے ساتھ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خدابارگاہ میں حقیقی عزت حاصل تھی ( ان العزة لله و لرسوله ) عزت خدا اور اس کے رسول کیلئے ہے _
رسول مقبول صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دامن عفو میں آنے کے بعد نہ صرف مؤمنین بلکہ دشمن بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے وفادار دوست بن جاتے تھے اس لئے کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے خدا سے یہ عظیم ادب سیکھا تھا، ارشاد ہوتاہے :
( ادفع بالتی هی احسن فاذا الذین بینک و بینه عداوة کانه ولی حمیم ) (۱)
اے میرے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم آپ لوگوں کی بدی کا بدلہ نیکی سے دیں تا کہ جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دشمن ہیں وہ دوست بن جائیں_
معلوم ہوتاہے کہ عفو و درگذر دلوں میں مہربانی پیدا کرنے کا سبب ہوا کرتاہے کہ کینہ پرور دشمن کے دل کو بھی نرم کردیتاہے ، انسان کی شخصیت کو بلند کرتاہے اور لوگوں کی توجہ عفو کرنے والے کی طرف مبذول ہوجاتی ہے ، لیکن اس کے برخلاف کینہ توزی اور انتقامی کاروائی سے لوگ بدظن ہوجاتے ہیں اور ایسے شخص سے فرار کرنے لگتے ہیں ، انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کامیاب ہوجانے کی ایک علت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا یہی رحم وکرم ہے _
___________________
۱) (فصلت ۳۴)_
اقتدار کے باوجود درگذر
انتقام کی طاقت ہونے کے باوجودمعاف کردینے کی بات ہی کچھ اور ہے ، اس سے بڑی وہ منزل ہے کہ جب انسان معاف کرنے کے ساتھ ساتھ احسان بھی کرے، قدرت و طاقت کے باوجود معاف کردینے اور بخش دینے میں انسانوں میں سب سے نمایاں مثال رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نبوت کے زمانہ میں مختلف افراد اور اقوام کو معاف کردینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں_
لطف و مہربانی کا دن
کفار و مشرکین مکہ کی خطاؤں کو معاف کردینے اور ان کو دامن عفو میں جگہ دینے والا سب سے مشہور دن فتح مکہ کے بعد کا دن ہے ، جن دشمنوں نے رسول اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے کی کوششیں کی تھیں اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ہجرت کر جانے پر مجبور کردیا تھا، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان دشمنوں کو معاف کردیا_
سعد بن عبادہ جو لشکر اسلام کے ایک کمانڈر تھے مکہ جاتے ہوئے انہوں نے نعرہ بلند کیا'' الیوم یوم الملحمه، الیوم تستحل الحرمة الیوم اذل الله قریشا'' آج خون بہانے کا دن ہے آج وہ دن ہے کہ جس دن حرمت و احترام کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آج خدا قریش کو ذلیل کریگا_
لیکن اس نعرہ کی خبر جب آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ہوئی تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ : سعد کو غلط فہمی ہوئی ہے، آج کا نعرہ یہ ہے:
''الیوم ، یوم الرحمة الیوم اعز الله قریشا''
آج لطف و مہربانی کا دن ہے آج خدا نے قریش کو عزت دی ہے_
بعض اصحاب نے عرض کی '' ہمیں خوف ہے کہ سعد کہیں حملہ نہ کردیں،پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے حضرت علی عليهالسلام کو بھیجا تا کہ سعد سے علم لیکر ان کے بیٹے قیس کو دیدیں حضور نے اس بہانے سے سعد کا کنٹرول چھینا تا کہ ان کے رنج کا سبب نہ بنے(۱)
اپنی پوری طاقت اور توانائی کیساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم جب کفار قریش کے سامنے کھڑے ہوئے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا اے قریش اور مکہ والو کیا تم کو معلو م ہے کہ ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ سواے خیر اور نیکی کے ہمیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کوئی اور توقع نہیں ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بزرگوار اور کریم بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں _ اس وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے وہی بات کہی جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے سامنے کہی تھی ( لا تثریب علیکم الیوم ) (۲) روایت ہے کہ جب یوسف نے ان کو پہچان لیا تو وہ ان کے دستر خوان پر ہر صبح و شام حاضر ہونے لگے انہوں نے اپنے بھائی یوسف سے کہا کہ ہم اپنے گذشتہ سلوک پر نادم ہیں _ جناب یوسف نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہر چند کہ میں آج مصر کا بادشاہ ہوںلیکن لوگ اسی پہلے دن کی نگاہ سے آج بھی مجھ کو دیکھ رہے ہیں _ اور کہتے ہیں کہ جو بیس درہم میں خریدا گیا تھا وہ آج مصر کی حکومت تک کیسے پہنچ گیا لیکن جب تم
____________________
۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص۲۸۵ ، ۲۸۴)_
۲) (یوسف ۹۲)_
آگئےاور یہ لوگ سمجھ گئے کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو تمہاری وجہ سے میں لوگوں کی نظروں میں بلند ہوگیاہوں ان لوگوں نے جب سمجھ لیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور خاندان حضرت ابراہیم عليهالسلام سے ہوں تو اب یہ لوگ اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے ایک غلام کو دیکھا جاتاہے _(سفینة البحار ج۱ ص ۴۱۲)
آج تمہاری سرزنش نہیں ہوگی _ تم شرمندہ نہ ہونا _ ہم نے آج تم کو معاف کردیا _ پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:اذهبوا انتم الطلقاء جاو اب تم آزاد ہو_
فتح مکہ کے بعد پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پوری قدرت اور طاقت حاصل تھی پھر بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے تمام دشمنوں کو آزاد کردیا، صرف ان پندرہ افراد کو امان سے مستثنی کیا جو اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اور بہت سی سازشوں میں ملوث تھے، وہ گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں، فتح مکہ کے بعد ان میں سے چار افراد کے علاوہ سب قتل کردیئے گئے، چار افراد کو امان ملی انہوںنے اسلام قبول کیا اور ان کی جان بچ گئی(۱)
اب ان لوگوں کا ذکر کیا جائیگا جن کو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دامن عفو میں جگہ ملی_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چچا حمزہ کا قاتل
جناب حمزہ کا قاتل '' وحشی'' بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھاجن کے قتل کا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فتح
___________________
۱) ( محمد الرسول صلىاللهعليهوآلهوسلم ص ۳۱۹ _ ۷۱۳)
مکہ سے پہلے حکم دے دیا تھا، مسلمان بھی اس کو قتل کرنے کی ناک میں تھے، لیکن وحشی بھاگ کر طاءف پہنچ گیا اور کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد طاءف کے نماءندوں کے ساتھ وہحضور صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے حضر ت رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں حمزہ کے قتل کی رویداد سنائی حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : میری نظروں سے اتنی دور چلاجاکہ میں تجھ کو نہ دیکھوں، اسی طرح یہ بھی معاف کردیا گیا(۱)
ابوسفیان کی بیوی عتبہ کی بیٹی ہند
ابوسفیان کی بیوی، عتبہ کی بیٹی '' ھند'' بھی ان لوگوں میں سے تھیکہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جسکا خون مباح کردیا تھا، اس لئے کہ اس نے حمزہ کو مثلہ کرکے ا ن کا کلیجہ چبانے کی کوشش کی تھی، فتح مکہ کے بعد وہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچی اور اس نے اظہار اسلام کیا تو حضور نے اس کو بھی معاف کردیا(۲)
ابن زبعری
فتح مکہ کے بعد '' ابن زبعری'' بھا گ کر نجران چلا گیا لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ رسول
___________________
۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۶۰)
۲) ( محمد الرسول صلىاللهعليهوآلهوسلم ۳۱۸)_
خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچا اس نے وحدانیت اور رسالت کی گواہی دی اور آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کہا کہ میں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے دشمنی کی، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے جنگ کرنے کیلئے میں نے پیادوں کا لشکر جمع کیا ، اس کے بعد میں بھاگ کر نجران چلا گیا میرا ارادہ تھا کہ میں کبھی بھی اسلام کے قریب نہیں جاوں گا لیکن خدا نے مجھ کو خیر کی توفیق عطا کی اور اس نے اسلام کی محبت میرے دل میں بٹھادی، آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : کہ اس خدا کی تعریف کہ جس نے تم کو اسلام کا راستہ دکھایا وہ اس سے پہلے کی باتوں پر پردہ ڈال دیتاہے_(۱)
ابوسفیان ابن حارث ابن عبدالمطلب (معاویہ کا باپ ابوسفیان نہیں بلکہ یہ دوسرا ابوسفیان ہے)_
یہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا چچا زاد اور دودھ شریک بھائی تھا ، اس نے کچھ مدت جناب حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ہم سن تھا_
بعثت سے پہلے تو یہ ٹھیک تھا مگر بعد میں یہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا سخت ترین دشمن بن گیا ، پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم اور مسلمانوں کی ہجو میں یہ اشعار کہا کرتا تھا، بیس سال تک اس نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے دشمنوں کا سا سلوک روا رکھا مسلمانوں سے لڑی جانے والی تمام جنگوں میں کفار کے ساتھ رہا ، یہاں تک کہ اس کے دل میں نور اسلام کی روشنی پہنچ گئی ، چنانچہ ایک روز وہ اپنے بیٹے اور غلام کے ساتھ مکہ سے باہر آیا اور اس وقت پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس پہونچا کہ جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم حنین
___________________
۱)(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۴۸، ترجمہ ڈاکٹر محمود مہدوی دامغانی)_
کی طرف روانہ ہورہے تھے، اس نے کئی بار اپنے آپ کو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کوئی توجہ نہیں دی اور اپنا رخ اس کی جانب سے پھیر لیا ، مسلمانوں نے بھی رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پیروی کرتے ہوئے بے اعتنائی کا ثبوت دیا ، لیکن وہ بھی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے لطف و کرم کا امیدوار رہا ، بات یوں ہی ٹلتی رہی یہاں تک کہ جنگ حنین شروع ہوگئی ابوسفیان کا بیان ہے کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم میدان جنگ میں ایک سفید اور سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہاتھوں میں برہنہ تلوار تھی ، میں تلوار لئے ہوئے اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور میں نے عمداً اپنی تلوار کی نیام توڑ ڈالی ، خدا شاہد ہے کہ وہاں میری یہی آرزو تھی کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا دفاع کرتے ہوئے میں قتل کردیا جاؤں_
عباس بن عبدالمطلب نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی میں بھی دوسری طرف تھا،آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے میری طرف نگاہ کی اور پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے چاہا کہ اپنے چہرہ کی نقاب ہٹادوں، عباس نے کہا :
اے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم یہ آپ کا چچا زاد بھائی ابوسفیان بن حارث ہے ، آپ اس پر مہربانی فرمائیں اور اس سے راضی ہوجائیں، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : میں راضی ہوگیا خدا نے اس کی وہ تمام دشمنی جو اس نے مجھ سے کی معاف کردی ہے _
ابوسفیان کا کہناہے کہ میں نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاؤں کو رکاب میں بو سے دیئے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا: میرے بھائی تمہیں میری جان کی قسم یہ نہ کرو پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے
فرمایا: آگے بڑھو اور دشمن پر حملہ کردو میں نے حملہ کرکے دشمن کو بھگا دیا، میں آگے آگے تھا اور رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم میرے پیچھے آرہے تھے میں لوگوں کو قتل کررہا تھا اور دشمن بھا گے جارہے تھے_(۱)
مولائے کاءنات حضرت علی عليهالسلام
عفو و رحمت کا دوسرانمونہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی گود کے پالے ،انسانیت کا اعلی نمونہ حضرت علی عليهالسلام ہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھی پوری طاقت اور قدرت و اختیار کے باوجود عفو و درگذر سے کام لیا اور پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت کو نمونہ بنایا_
فتح بصرہ کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اصحاب سے ان لوگوں کو معاف کردینے کی سفارش کی جنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تھی اور نئی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش کی تھی ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے حکم دیا کہ بھاگ جانے والوں کا پیچھا نہ کیا جائے ان کا مال نہ لوٹا جائے، آپ عليهالسلام کی طرف سے ایک منادی ندا دیتا جارہا تھا جو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دے اور گھر میں چلا جائے اس کو امان ہے، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عفو کا دامن اتنا پھیلا کہ آپ عليهالسلام نے لشکر کے سپہ سالاروں اور قوم کے سربرآوردہ افراد نیز جناب عائشہ کو معاف کردیا،تو جناب عائشہ کو تو احترام اور تحفظ کے ساتھ مدینہ بھیجا اور مروان بن حکم کو بھی معاف کردیا جو کہ آپ عليهالسلام
___________________
۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۱۹ ، ۶۱۶)_
کا سخت ترین دشمن تھااور ابن زبیر کو بھی معاف کردیا جو آپ کے لشکر کی کامیابی سے پہلے بصرہ میں آپ عليهالسلام کے خلاف ناروا باتیں کہا کرتا تھا اور لوگوں کو آپ عليهالسلام کی خلاف بھڑکاتارہتا تھا(۱)
___________________
۱) ( اءمتنا ج ۱ ص ۴)_
خلاصہ درس
۱)انسانیت کے مظہر کامل ہونے کے اعتبار سے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم انسانیت کے فضاءل اور کرامات کااعلی نمونہ تھے، آپ اخلاق الہی سے مزین اور انک لعلی خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز تھے_
۲) آپ کے فضاءل میں سے یہ بھی ہے کہ خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو'' روف و رحیم '' کی صفت سے یاد فرمایاہے _
۳ ) پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کسی سے بھی انتقام نہیں لیا بلکہ جو بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اذیت پہنچا تھا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اسکو معاف فرمادیتے تھا مگر جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم یہ دیکھتے تھے کہ حکم خدا کی ہتک حرمت کی جاتی تھی تو اس وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم حد جاری کرتے تھے_
۴ ) عفو کردینا انسانیت کا کامل ہے اسلئے کہ عفو کرنے والا اپنے نفس کو دبانے کے سلسلہ میں جہاد اکبر میں مشغول ہوتاہے_
۵ )عفو کا ایک قابل قدر اثر یہ بھی ہے کہ انسان دنیا و آخرت میں باعزت رہتاہے_
۶ )رسول خدا اپنی صفات کمال عفو اور مہربانی کے ذریعہ خدا کے نزدیک حقیقی عزت کے مالک ہیں اور مؤمنین کے دلوں میں بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بڑی قدر و منزلت ہے_
۷) سب سے زیادہ بہترین عفو و ہ ہے جو طاقت اور قدرت کے باوجود ہو اور اگر عفو کے ساتھ احسان ہو تو اسکا درجہ اس سے بھی بڑا ہے_
سوالات :
۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کیا جواب دیا؟
۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟
۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟
۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟
۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟
دسواں سبق:
(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)
عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_
اعرابی کا واقعہ
ایک دن ایک اعرابی رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کوئی چیز مانگی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ
آگیا وہ آگے بڑھے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_
___________________
۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_
امام حسن مجتبی اورشامی شخص
ایک دن حسن مجتبی عليهالسلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپ عليهالسلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علی عليهالسلام اور فرزندان علی عليهالسلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امام عليهالسلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپ عليهالسلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _
جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ
آپ عليهالسلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپ عليهالسلام اور آپ عليهالسلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _
پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)
امام سجاد عليهالسلام اور آپ کا ایک دشمن
منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدین عليهالسلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپ عليهالسلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپ عليهالسلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امام عليهالسلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _
( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)
وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _
___________________
۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_
۲) (آل عمران۱۳۴)_
ان لوگوں نے سمجھا کہ امام عليهالسلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرت عليهالسلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسین عليهالسلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپ عليهالسلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امام عليهالسلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)
ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _
مالک اشتر کی مہربانی اور عفو
جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علی عليهالسلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علی عليهالسلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علی عليهالسلام کے علاوہ مالک اشتر
___________________
۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _
سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علی عليهالسلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپ عليهالسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علی عليهالسلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے
لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)
ظالم سے درگذر
خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _
قرآن کا ارشاد ہے :
( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)
جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _
قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _
( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)
اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_
___________________
۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_
۲) (بقرہ ۱۹۴)_
۳) (بقرہ ۱۷۹) _
لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _
( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)
اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_
عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_
امام زین العابدین عليهالسلام اور ہشام
بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے
___________________
۱) (بقرہ ۲۳۷)_
۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_
لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسین عليهالسلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امام عليهالسلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امام عليهالسلام ہشام کے قریب آئے اور آپ عليهالسلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپ عليهالسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امام عليهالسلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)
___________________
۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_
امام رضا عليهالسلام اور جلودی
جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علی عليهالسلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضا عليهالسلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپ عليهالسلام کے گھر پر حملہ کردیاامام عليهالسلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امام عليهالسلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امام عليهالسلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امام عليهالسلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپ عليهالسلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _
جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضا عليهالسلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضا عليهالسلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امام عليهالسلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپ عليهالسلام پر
بڑا ظلم کیا ہے _ آپ عليهالسلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_
جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امام عليهالسلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)
سازش کرنے والے کی معافی
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپ عليهالسلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپ عليهالسلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے
___________________
۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_
مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_
ایک اعرابی کا واقعہ
جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)
اس طرح پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_
یہودیہ عورت کی مسموم غذا
امام محمد باقر عليهالسلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم میں مسموم ہوں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نہ کھائیں _پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ
___________________
۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_
اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پیغمبر ہیں ، تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)
علی عليهالسلام اور ابن ملجم
حضرت علی عليهالسلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپ عليهالسلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنین عليهالسلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپ عليهالسلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپ عليهالسلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپ عليهالسلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علی عليهالسلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپ عليهالسلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپ عليهالسلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپ عليهالسلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _
حضرت علی عليهالسلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)
___________________
۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_
۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_
جب ابن ملجم نے آپ عليهالسلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپ عليهالسلام کے پاس لایا گیا آپ عليهالسلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپ عليهالسلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)
سختی
اب تک رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں
___________________
۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)
کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی اور حضرت علی عليهالسلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _
مخزومیہ عورت
جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک
___________________
۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _
ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)
آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم ( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _
___________________
۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_
خلاصہ درس
۱) رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_
۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپ عليهالسلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_
۳) جن لوگوں نے رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _
۴ ) پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ عليهالسلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_
۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_
سوالات
۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟
۲_ امام زین العابدین عليهالسلام کی جس شخص نے امانت کی آپ عليهالسلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟
۳_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟
۴ _ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟
۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے
گیارہواں سبق:
(شرح صدر)
شر ح کے معنی پھیلانے اور وسعت دینے کے ہیں _ صاحب اقرب الموارد لکھتے ہیں :''شرح الشئ ای وسعه'' (کسی چیز کی شرح کی یعنی اسے وسعت دی)(قاموس قرآن تھوڑے سے تصرف کے ساتھ)_
شرح یعنی کھولنا اور شرح صدر یعنی باطنی وسعت اور معنوی حقائق سمجھنے کے لئے آمادگی(۱) _
شرح صدر کی تعریف میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ آمادگی اور مطالب کو درک کرنے کی ظرفیت و صلاحیت کا موجود ہونا شرح صدر ہے _ اب اگر یہ آمادگی الہی توفیق اور تایید کی بناپر ہوگی تو حق کی طرف رجحان بڑھ جائے گا قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:
( فمن یرید الله ان یهدیه یشرح صدره للاسلام ) (۲)
___________________
۱) (نثر طوبی ج۲ ص ۴ تھوڑے سی تبدیلی کے ساتھ)_
۲) (انعام آیت ۱۲۵)_
'' خدا جس کی ہدایت کرنا چاہتاہے اسلام قبول کرنے کے لئے اس کا سینہ کشادہ کر دیتاہے''
خدا سے دوری کی وجہ سے انسان میں کفر اور باطل کو قبول کرنے کی آمادگی پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی شرح صدر ہے لیکن اس کو کفر کے لئے شرح صدر کہتے ہیں : قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:
( لکن من شرح بالکفر صدر فعلیهم غضب الله ) (۱)
لیکن جن لوگوں کا سینہ کفر اختیار کرنے کے لئے کشادہ اور تیار ہے ان کے اوپر خدا کا غضب ہے اور ایسے لوگ آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوں گے _
تفسیر المیزان میں علامة طباطبائی فرماتے ہیں :
'' لکن من شرح بالکفر صدره ای بسط صدره للکفر فقبله قبول رضی و دعاه'' (۲)
کفر کے لئے شرح صدر کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفر کو برضا و رغبت قبول کرلے_
اگر کوئی انسان حقیقت کا ادراک اور مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتاہے تو اس کو سعہ صدر کا مالک ہونا چاہیے ، دریا دل ہونا چاہیے اور اس کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ راستہ میں مشکلات موجود ہیں جن کو برداشت کئے بغیر کوئی بھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا_
___________________
۱) (نحل آیت ۱۰۶)_
۲) (المیزان ج۱۲ ص ۳۵۴)_
وسعت قلب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم
پیغمبر اکر م صلىاللهعليهوآلهوسلم جس سرزمین پر مبعوث ہوئے وہ علم و تمدن سے دور تھی ، عقاءد و افکار پر خرافات اور بت پرستی کا رواج تھا، ان کے درمیان ناشاءستہ آداب و رسوم راءج تھے، پیغام حق پہنچانے کے لئے پیغمبر اکرم کو بڑے صبر سے کام لینا اور مشکلات کا کو برداشت کرنا تھا، آنحضرت نے مشکلات کا مقابلہ کیا ، سختیوں کو برداشت کیا ، اذیتوں کے سامنے پامردی سے ڈٹے ہے لیکن کبھی کبھی اتنی تکلیف دہ باتیں سامنے آجاتی تھیں کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو کہنا پڑتا تھا:
''ما اوذی احد مثل ما اوذیت فی الله'' (۱)
'' خدا کی راہ میں کسی کو اتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی مجھے دی گئی ہے ''
لیکن ایسی حالت میں بھی آپ نے ان کے لئے بدعا نہیں فرمائی آپ فرماتے تھے:
( اللهم احد قومی فانهم لایعلمون ) (۲)
''پالنے والے میری قوم کو ہدایت فرمایہ ناواقف ہیں''
خداوند عالم کی طرف سے پیغمبر کو شرح صدر عطا کیا گیا تھا قرآن نے حضرت کو مخاطب کرکے فرمایا:
( الم نشرح لک صدرک ) (۳)
___________________
۱) (میزان الحکمة ج۱ ص۸۸)_
۲) (سورہ الم نشرح آیت ۱)_
۳) (سورہ الم نشرح ۱)_
کیا ہم نے تمہارے سینہ کو کشادہ نہیں کیا _
امیر المؤمنین عليهالسلام نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سخاوت اور شرح صدر میں سب سے آگے تھے_(۱)
بد دعا کی جگہ دعا
کسی جنگ میں اصحاب نے کہا کہ آپ دشمن کے لئے بد دعا کیجئے ، آپ نے فرمایا: میں ہدایت ، مہربانی کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں بددعا کرنے کے لئے نہیں_(۲)
جب کبھی کسی نے کسی مسلمان یا کافر کے لئے بددعا کرنے کے لئے کہا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہمیشہ بددعا کے بجائے دعا کے لئے ہاتھ بلند فرمائے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کبھی بددعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھائے مگر یہ کہ یہ کام خدا کے لئے ہو، کسی بھی غلط کام پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کبھی بھی انتقام نہیں لیا، لیکن اگر کسی نے حرمت خدا کو پامال کیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس سے ضرور انتقام لیا _(۳)
ایک اعرابی کی ہدایت
صحراؤں میں رہنے والا ایک اعرابی پیغمبر کے پاس پہنچا اس نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کسی چیز کا
___________________
۱) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۴۹)_
۲) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۹)_
۳) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۹)_
سوال کیا آپ نے اس کو کچھ عطا کرنے کے بعد فرمایا:'' کیا میں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کیا ؟
اس عرب نے کہا : ' ' نہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے میرے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی _ مسلمان بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے اس کی تنبیہ کا ارادہ کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو روکا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بزم سے اٹھے اور اس اعرابی کو لے کر اپنے گھر تشریف لائے اس کو کچھ اور سامان دیا پھر اس سے پوچھا کہ میں نے تیرے ساتھ نیکی کی ؟ عرب نے کہا ہاں خدا آپ کے بال بچوں کو اچھا رکھے_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: تم نے ابھی جو بات کہی تھی اس کی وجہ سے میرے اصحاب ناراض ہوگئے تھے اگر تم کو یہ بات بھلی معلوم ہو تو میرے اصحاب کے سامنے بھی چل کر وہی کہہ دو جو تم ابھی کہہ رہے تھے تا کہ ان کے دلوں میں تمھارے خلاف جو بات ہے وہ نکل جائے _دوسرے دن جبپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم مسجد میں تشریف لائے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ اس عرب سے ایک بات تم نے سنی تھی اس کے بعد میں نے اس کو کچھ اور دے دیا اب میرا خیال ہے کہ یہ راضی ہوگیا ہوگا عرب نے کہا جی ہاں میں راضی ہوں خدا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو اور آپ کے اہل و عیال کو خیر سے نوازے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا ایسے افراد کی مثال اس شخص کی ہے جس کا اونٹ بھاگ گیا ہو لوگوں نے اونٹ کے مالک کی مدد کے لئے اس کے پیچھے دوڑنا اور چلانا شروع کردیا ہو اونٹ ان آوازوں کو سن کر اور تیزی سے بھاگنے لگا ہو مالک نے کہا : ہو کہ آپ حضرات ہٹ جائیں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میرا اونٹ کیسے قبضہ میں آئے گا پھر وہ تھوڑا چارہ
اپنی مٹھی میں لیکر آہستہ آہستہ اونٹ کے قریب آیا ہو اور چارہ دکھاتے دکھاتے اس نے اونٹ کو پکڑ لیا ہو_
اگر تم لوگوں کو میں چھوڑ دیتا تو تم لوگ اس کو قتل کردیتے اور یہ شخص گمراہی کے عالم میں جہنم میں چلا جاتا_(۱)
تسلیم اور عبودیت
تمام ادیان الہی کی بنیاد اور اساس یہ ہے کہ خدا پر ایمان لایا جائے اور اس کے حکم کو بلا چون و چرا تسلیم کرلیا جائے ایمان اور تسلیم اگر چہ دو ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق دل سے ہے ظاہری طور پر یہ دکھائی نہیں دیتیں لیکن عمل اطاعت اور عبادت خدا کی منزل میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے اور یہ معلوم ہوجاتاہے کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے ، صحیح اور غلط کیا ہے _
حضرت امیر المؤمنین فرماتے ہیں :
''الاسلام هو التسلیم و التسلیم هو الیقین والیقین هو التصدیق والتصدیق هو الاقرار والاقرار هو الاداء والاداء هو العمل'' (۲)
اسلام تسلیم ہے تسلیم یقین ہے ، یقین تصدیق ہے ، تصدیق اقرار ہے اقرار فرمان کوبجالانے کا نام ہے اور فرمان کو بجالانا نیک عمل ہے_
___________________
۱) محجة البیضاء ج۴ ص ۱۴۹_
۲) نہج البلاغہ حکمت ۱۲۵ ص ۲۶۵_
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم جو اسلام کے مؤسس اور پہلے مسلمان ہیں ، قرآن کریم آپ کے بارے میں فرماتاہے:
( و امرت ان اکون اول المسلمین ) (۱)
یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں پہلا مسلمان ہوں_
خداوند عالم کی ذات مقدس کے سامنے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم تسلیم محض کی صفت سے متصف تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم عذاب و عقاب خدا سے محفوظ تھے لیکن پھر بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بارے میں ارشاد ہوتاہے :
( لیغفر الله ما تقدم من ذنبک و ما تاخر ) (۲)
خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی گذشتہ اور آئندہ باتوں کو بخش دیا ، آپ نے کبھی بھی عبادت خدا سے ہاتھ نہیں اٹھا یا اور اتنی عبادت کی کہ سب حیرت میں پڑگئے_
ہم یہاں آپ کی کچھ عبادات کا ذکر کریں گے_
پیغمبر کی نماز
امام زین العابدین عليهالسلام فرماتے ہیں :
''ان جدی رسول الله قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه و ما تاخر فلم یدع الاجتهاد له و تعبد_ بابی و امی حتی انتفخ الساق و ورم القدم و
___________________
۱) (سوہ زمر ۱۲)_
۲) (فتح آیت ۲)_
قیل له اتفعل هذا و قد غفر الله لک ما تقدم من ذنبک و ما تاخر؟ قال افلا اکون عبداً شکوراً'' (۱)
اللہ تعالی نے میرے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے گذشتہ اور آئندہ دونوں الزامات کو معاف کردیا تھا_ لیکن اس کے باوجود آپ نے سعی و عبادت کو ترک نہیں فرمایا _ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں _آپ اس طرح عبادت کرتے تھے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پیروں میں ورم آجاتا تھا ، لوگوں نے کہا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کیوں اتنی زحمت کرتے ہیں خدا نے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے گذشتہ اور آئندہ دونوں الزامات کو معاف کردیا ہے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ کیا میں خدا کا شکر گذار بندہ نہ رہوں ؟
امام زین العابدین فرماتے ہیں :
''و کان رسول الله ایقوم علی اطراف اصابع رجلیه ما نزل الله سبحانه طه ما انزلنا علیک القرآن لتشفی'' (۲)
پیغمبر اکر م صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز کے لئے اتنا زیادہ قیام فرماتے تھے کہ خدا نے آیہ طہ ( ما انزلنا علیک القرآن لتشقی ) نازل کی_
یعنی ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہیں نازل کیا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے کو مشقت میں ڈالدیں_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۸۸ طبع بیروت)_
۲) (بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۶۴ طبع بیروت)_
پیغمبر کی دعا
ایک رات رسول خدا ام سلمہ کے گھر پر تشریف فرماتھے _ جب تھوڑی رات گزری تو جناب ام سلمہ نے دیکھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بستر پر موجود نہیں ہیں اٹھ کر تلاش کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کمرہ کے ایک کو نہ میں کھڑے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور خدا کی بارگاہ میں ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کررہے ہیں_
''اللهم لا تنزع منی صالح ما اعطیتنی ابداً'' (۱)
خدایا تو نے جو نیکی مجھ کو عطا کی ہے اس کو مجھ سے جدا نہ کرنا_
''اللهم لا تشمت عدواً و لا حاسداً ابداً''
خدایا میرے دشمنوں اور حاسدوں کو کبھی بھی خوش نہ رکھنا_
''اللهم لا ترد لی فی سوء استنقذتنی منه ابداً''
خدایا جن برائیوں سے تو نے مجھ کو نکالاہے اس میں پھر واپس نہ پلٹادینا_
''اللهم و لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابداً''
پالنے والے ایک لمحہ کے لئے بھی مجھ کو میرے نفس کے حوالے کبھی نہ کرنا_
ام سلمہ رونے لگیںآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ تم کیوں رورہی ہو؟
جناب ام سلمہ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں میں کیوں نہ گریہ کروں میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس بلند مقام پر فائز کہ خدا نے گذشتہ اور آئندہ کے تمام
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۱۷ مطبوعہ بیروت)_
الزامات کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے لئے معاف کردیا _ پھر بھی آپ خدا سے اس طرح راز و نیاز کی کررہے ہیں ( ہم کو تو اس سے زیادہ خدا سے ڈرنا چاہیے) آنحضرت نے فرمایا :
'' و ما یومننی؟ و انما وکل الله یونس بن متی الی نفسه طرفة عین و کان منه ما کان'' (۱)
ہم کسی طرح اپنے کو محفوظ سمجھ لیں حالانکہ یونس پیغمبر عليهالسلام کو خدا نے ایک لمحہ کے لئے ان کے نفس کے حوالے کیا تھا تو جو مصیبت ان پر آنا تھی وہ آگئی''
پیغمبر کا استغفار
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بہت استغفار کرتے تھے_
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں :
''کان رسول الله یستغفر الله عزوجل کل یوم سبعین مرة و یتوب الی الله سبعین مرة'' (۲)
رسول خدا ہر روز ستر مرتبہ استغفار کرتے اور ستر مرتبہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرتے تھے_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۱۸)_
۲) (بحار الانوار ج۱۶ ص۲۸۵ مطبوعہ بیروت)_
پھر امام عليهالسلام فرماتے ہیں :
''ان رسول الله کان لا یقوم من مجلس و ان خفف حتی یستغفر الله خمس و عشرین مرة '' (۱)
رسول خدا کسی چھوٹی سے چھوٹی بزم سے بھی پچیس مرتبہ استغفر اللہ کہے بغیر نہیں اٹھتے تھے_
پیغمبر کا روزہ
امام جعفر صادق عليهالسلام کا ارشاد ہے :
''کان رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم یصوم حتی یقال لا یفطر ثم صام یوما ً و افطر یوماً ثم صام الاثنین والخمیس ثم اتی من ذلک الی صیام ثلاثة ایام فی الشهر الخمیس فی اول الشهر و اربعاء فی وسط الشهر و خمیس فی آخر الشهر و کان یقول ذلک و صوم الدهر'' (۲)
رسول خدا مسلسل اتنے روزے رکھتے تھے کہ لوگ کہتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی دن بھی بغیر روزے کے نہیں رہتے کچھ دنوں کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ایک دن ناغہ کرکے روزہ رکھنے لگے ، پھر اس کے بعد پیر اور جمرات کو روزہ رکھتے تھے پھر اس کے بعد آپ نے اس میں
___________________
۱) (بحار الانوار ج۱۷ ص ۲۸۵ مطبوعہ بیروت)_
۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۷۰ مطبوعہ بیروت)_
تبدیلی کی اور ہر مہینے میں تین روزے رکھنے لگے اب ہر مہینہ کی پہلی جمعرات کواور مہینہ کے درمیان بدھ کے دن ( اگر مہینہ کی درمیانی دھائی میں دوبدھ آجائے تو پہلے _ بدھ کو آپ روزہ رکھتے تھے _(۱)
مہینہ کی آخری جمعرات کو اور آپ فرماتے تھے اگر کوئی ان دنوں میں روزہ رکھے تو وہ ہمیشہ روزہ دار سمجھا جائے گا_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا اعتکاف
امام جعفر صادق عليهالسلام سے منقول ہے :
''اعتکف رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم فی شهر رمضان فی العشر الاول ثم اعتکف فی الثانیة فی العشر الوسطی ثم اعتکف فی الثلاثة فی العشر الاواخر ثم لم یزل یعتکف فی العشر الاخر'' (۲)
رسول خدا نے ماہ رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کیا دوسرے سال ماہ رمضان میں دوسرے عشرہ کو اعتکاف کے لیے منتخب فرمایا تیسرے سال آخری عشرہ ماہ رمضان میں آپ نے اعتکاف فرمایا اس کے بعد ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ اعتکاف کرتے رہے_
___________________
۱) (منتہی الآمال ص ۲۷)_
۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۷۴)_
امام جعفرصادق عليهالسلام نے فرمایا : جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم عبادت کے لیے آمادہ ہوجاتے عورتوں سے الگ ہوجاتے اور پوری پوری رات جاگ کر گذارتے تھے _(۱)
خدا کی مرضی پر خوش ہونا
جب رسول اللہ کے بیٹے ابراہیم دنیا سے رخصت ہوگئے اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے آپ نے فرمایا:
''تدمع العین ویحزن القلب و لا نقول ما یسخط الرب و انا بک یا ابراهیم لمحزون'' (۲)
آنکھوں سے اشک جاری ہیں دل رنجیدہ ہے لیکن خدا جس بات سے غضبناک ہوتاہے وہ بات میں زبان پر جاری نہیں کروں گا اے ابراہیم میں تمہارے غم میں سوگوار ہوں_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۷۳ مطبوعہ بیروت)_
۲) (بحارالانواج ۲۲ ص ۱۵۷ مطبوعہ بیروت)_
خلاصہ درس
۱) لغت میں شرح کے معنی پھلانے اور وسعت دینے کے ہیں شرح صدر کا مطلب باطنی کشادگی کا ظہوراور معانی و حقائق کو قبول کرنے کی آمادگی ہے جب خدا کی طرف سے یہ آمادگی ہوتی ہے تو انسان خدا کی توفیق و تایید سے حق کی طرف مائل ہوتاہے جس طرح خدا سے دوری کی بناپر باطل اور کفر کو قبول کرنے کی آمادگی پیدا کرلیتاہے اور یہ آمادگی بھی شرح صدر ہے مگر اس کو کفر کے لیے شرح صدر کہا جاتاہے_
۲) پیغمبر کو خدا کی طرف سے جو عطیات ملے ہیں ان میں سے شرح صدر کی نعمت بھی ہے ارشاد ہے '' الم نشرح لک صدرک'' کیا ہم نے آپ کے سینہ کو کشادہ نہیں کیا _ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب عليهالسلام نے فرمایا : پیغمبر کی سخاوت اور ان کا شرح صدر ہر ایک سے زیادہ تھا_
۳) تمام ادیان الہی کی بنیاد خدا پرا یمان اور تسلیم محض پر استوار ہے _
۴ ) خدا کی ذات کے سامنے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سر تسلیم خم کرلیا تھا_ باوجودیکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم عذاب اور عقاب سے محفوظ تھے پھر بھی عبادت میں کمی نہیں کرتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس قدر استغفار کرتے تھے کہ لوگوں کو حیرت ہوتی تھی_
سوالات؟
۱_ لغت میں شرح صدر کے کیا معنی ہیں ؟
۲ _ شرح صدر کا کیا مطلب ہے ؟
۳_ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے شرح صدر کی کیفیت بیان فرمایئے_
۴ _ انسان کے ایمان پر تسلیم و عبودیت کا کیا اثر پڑتاہے ؟
۵ _ رسول خدا کا تعبد ( تسلیم محض ) کیساتھ تھا، آیہ لیغفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک و ما تاخر کو پیش نظر رکھ کر جواب دیجئے_
۶_ جب حضور رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ابتدائے عمر سے انتہاء تک کوئی گناہ نہیں کیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اتنا زیادہ استغفار کیوں کرتے تھے؟
بارہواں سبق:
(مدد اور تعاون )
مدد اور باہمی تعاون پر انسانی معاشرہ کی بنیاد استوار ہے ضرورتوں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے ایک طرف تو معاشرہ مضبوط ہوتا ہے دوسری طرف آپس میں محبت اور دوستی بڑھتی ہے اس کے برعکس سماجی کاموں میں ہاتھ نہ بٹانا اور ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنا ظلم اور انسان کے خدا کی رحمت سے دوری کا باعث ہے_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ارشاد ہے :
''ملعون من القی کله علی الناس '' (۱)
''جو اپنا بوجھ دوسرے کے کاندھے پر رکھدے وہ خدا کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے ''_
اسلام نے انسانوں کو اچھے اور نیک کاموں میں مدد کرنے کی تعلیم دی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے:
( تعاونوا علی البر و التقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) (۲)
___________________
۱) (نہج الفصاحہ ۵۶۸) _
۲) (سورہ ماءدہ ۲) _
نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرو ظلم و گناہ میں مدد گار نہ بنو_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھی اپنے اصحاب اور پیروکاروں کو مدد و نصرت اور تعاون کی تعلیم دی ہے :
''من اصبح لا یهتم بامور المسلمین فلیس بمسلم'' (۱)
جو شخص مسلمانوں کے امور سے بے توجھی برتتے ہوئے صبح کرے وہ مسلمان نہیں ہے_
نیز فرمایا :
''من بات شبعان و جاره جاءع فلیس بمسلم '' (۲)
جو شخص شکم سیر ہو کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے تو وہ مسلمان نہیں ہے _
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے با ایمان معاشرہ کی تشبیہ انسانی جسم سے دی ہے مثل''المومنین فی توادهم و تراحمهم کمثل الجسد اذا شتکی بعضهم تداعی سایرهم بالسهر و الحمی '' (۳)
دوستی اور مہربانی میں مومنین کی مثال اعضاء بدن کی سی ہے جب کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے اعضاء بھی اسکی رعایت اور نگرانی کرنے لگتے ہیں _
___________________
۱) (محجة البیضاء ج ۲ ص ۴۰۷) _
۲) ( نہج الفصاحہ ۵۵۹) _
۳) ( نہج الفصاحہ ۵۶۱) _
سعدی نے کہا تھا :
بنی آدم اعضاء یک پیکر اند
کہ در آفرینش ز یک گوہر اند
چو عضوی بدرد آورد روزگار
دگر عضوہا را نماند قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نہند آدمی
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں :
''من قضا لاخیه المومن حاجة قضی الله عزوجل له یوم القیمه ماة الف حاجة من ذالک اولها الجنة'' (۱)
اگر کوئی اپنے مومن بھائی کی حاجت پوری کرے تو قیامت کے دن خدا اس کی ایک لاکھ حاجتیں پوری کریگا جن میں سب سے پہلی حاجت جنت ہے _پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم صرف مسلمانوں ہی کو مدد اور تعاون کی تعلیم نہیں دیتے تھے بلکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بھی مختلف کاموں میں شریک ہوجاتے تھے یہاں تک کہ اصحاب آگے بڑھ کر آپ، کے بدلے اس کام کے کرنے کا اصرار کرنے لگتے تھے لیکن آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اس بات کو قبول نہیں کرتے اور فرماتے تھے کہ خدا اپنے بندہ کو دوسروں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا_(۱)
مدد اور تعاون کی اہمیت کو اور زیادہ واضح کرنے کیلئے رسول خدا کے معاشرتی کاموں میں تعاون اور مدد کی مزید مثالیں ہم پیش کر رہے ہیں _
___________________
۱) (داستان راستان ج ۱ ص ۱۲)_
جناب ابوطالب کے ساتھ تعاون
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بعثت سے پہلے مکہ کے لوگ فقر و فاقہ اور اقتصادی پریشانیوں میں مبتلا تھے ، جناب ابوطالب بنی ہاشم کے سردار تھے ، لیکن اولاد کی کثرت کی بنا پر پریشانیوں اور الجھنوں میں مبتلا رہتے تھے ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اس صورت حال کو دیکھ کر رنجیدہ ہوتے تھے لہذا ایک روز آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے دوسرے چچا جناب عباس کے پاس گئے کہ جن کی حالت جناب ابوطالب عليهالسلام کی نسبت زیادہ بہتر تھی اور فرمایا : چچا آپ کے بھائی ابوطالب کا خاندان بڑا ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ اقتصادی تنگی میں گذر بسر کر رہے ہیں آیئےم آپ کے ساتھ چلیں اور ان کا بوجھ بانٹ لیں ان کے ایک بچہ کو میں لے لوں اور ایک کو آپ لے آئیں، عباس نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بات قبول کی ، دونوں حضرات جناب ابوطالب کے پاس پہنچے عباس نے جعفر کو اور پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے علی عليهالسلام کو اپنے ساتھ لیا اس طرح ابوطالب کے خاندان کے دو افراد کا بوجھ ان سے کم ہوگیا(۱)
مسجد مدینہ کی تعمیر میں شرکت :
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم جب مدینہ پہنچے تو اس وقت عبادت اور دوسرے سیاسی و معاشرتی کاموں کیلئے ایک مسجد بنانا لازمی ہوگیا تھا _
___________________
۱) ( سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۳) _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مسجد بنانے کی پیشکش کی تو لوگوں نے اس تجویز کا استقبال کیا اور مسجد کے لیے زمین خریدی گئی اور مسجد بننے لگی _
سارے مسلمانوں کی طرح حضور اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی پتھر اٹھا کرلا رہے تھے ، اسید بن حضیر نے جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کو کام کرتے ہوئے دیکھا تو کہا اے اللہ کے رسول آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پتھر مجھے دیدیں میں لے چلوں گا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : نہیں ، جاؤتم دوسرا پتھر اٹھالو(۱)
خندق کھودنے میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شرکت
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نئی حکومت کو ختم کردینے کے ارادہ سے عرب کے مختلف قباءل مدینہ کی جانب بڑھے _
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دشمنوں کے ارادے کی خبر پاتے ہی اپنے اصحاب کو جمع کیا اور دشمن کے عظیم لشکر سے جنگ اور دفاع کے بارے میں ان سے مشورہ فرمایا _ جناب سلمان فارسی کی پیشکش اور پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تائید سے یہ طے پایا کہ مدینہ کی اطراف میں خندق کھود دی جائے تا کہ دشمن شہر کے اندر داخل نہ ہوسکے _
ہر بیس تیس قدم کے فاصلہ پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے مہاجرین و انصار کو خندق کھودنے کے لئے معین فرمایا جس حصہ میں مہاجرین خندق کھود رہے تھے وہاں کدال لیکر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بھی پہنچ گئے اور
___________________
۱) ( بحار الانوار ج ۹ ص ۱۱۱)_
خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا :
''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)
آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_
جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_
جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)
عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ
___________________
۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _
۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_
گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم خود تشریف لائے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)
کھانا تیار کرنے میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شرکت
جب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _
اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم زحمت نہ فرمائیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)
___________________
۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_
۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_
شجاعت کے معنی :
شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)
جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _
شجاعت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم :
صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت تھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _
رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت علی عليهالسلام کی زبانی :
تقریبا چالیس سال کا زمانہ علی عليهالسلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے
___________________
۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)
پہلوانوں کو زیر کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا یہ بیان رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپ عليهالسلام فرماتا ہیں :
''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)
جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)
بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_
جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی
___________________
۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _
۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_
تھی ؟ تو انہوں نے کہا :
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم فرما رہے ہیں :
''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)
میں راست گو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _
___________________
۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_
خلاصہ درس :
۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _
۲ _ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _
۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _
۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_
۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_
سوالات :
۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟
۲_ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟
۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟
۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟
۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟
۶_ جنگوں میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟
تیرہواں سبق:
(پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بخشش و عطا )
دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومین عليهالسلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _
سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرام عليهالسلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _
اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاء عليهالسلام خصوصاً پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا :
''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)
___________________
۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_
سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _
سخاوت کی تعریف :
سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)
اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاء عليهالسلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _
علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _
مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا
___________________
۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_
۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_
نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :
( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)
اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _
اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)
اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _
مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل
___________________
۱) ( الاسراء ۲۹) _
۲) (فرقان ۶۷) _
ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _
سخاوت کی اہمیت :
اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_
''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)
سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _
''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)
___________________
۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_
۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _
۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _
''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _
سخاوت کے آثار :
خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_
۱ _ بہت بولنے والا سخی
امام جعفر صادق عليهالسلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _
___________________
۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_
اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _
اس شخص نے کہا : کہ کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)
۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :
مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _
انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_
___________________
۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_
''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)
میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _
دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :
بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _
اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سخاوت
جناب جابر بیان کرتے ہیں :
''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _
امیرالمؤمنین عليهالسلام رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :
___________________
۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _
۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _
'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)
بخشش و عطا میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم جیسا نہیں پایا _
رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)
___________________
۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _
۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_
خلاصہ درس :
۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومین عليهالسلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _
۲) تمام انبیاء عليهالسلام خصوصا ً پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _
۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _
۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_
۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _
۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_
۷)رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_
سوالات :
۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟
۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟
۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟
۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟
۵_ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟
چودھواں سبق:
(سخاوت ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خداداد صفت )
ابن عباس نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا :
''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)
میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ردا اچک لے گئے _
___________________
۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_
حضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا :
''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)
میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _
صدقہ کو حقیر جاننا
جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)
انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _
___________________
۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _
۲) شرف النبی ج ۶۹_
اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :
'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)
نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _
اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _
___________________
۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کمال سخاوت یا ایثار
جود و سخاوت میں ایثار کا سب سے بلند مرتبہ ہے مال کو احتیاج کے باوجود خرچ کردینے کا نام ایثار ہے اسی وجہ سے اس کی تعریف قرآن مجید میں آئی ہے :
''و یوثرون علی انفسهم و لو کا ن بهم خصاصه ''' (۱)
وہ خود چاہے کتنے ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرتے ہیں_
بے بضاعتی کے عالم میں سخاوت کرنا ایثار سے بہت قریب ہوتا ہے اسی وجہ سے غنی کے حالت میں بخشش و عطا کرنے سے زیادہ اس کی فضیلت ہے ، امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :
''جهد المقل اما سمعت قول الله عزوجل و یوثرون علی انفسهم ولو کان بهم خصاصة'' (۲)
وہ صدقہ جو تنگ دست انسان دیتا ہے وہ سب سے بہتر ہے کیا تم نے خدا کا یہ قول ( ویوثرون علی ) نہیں سنا کہ لوگ خود نیازمند ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ازدواج میں سے ایک بیوی نے بتایا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے آخر وقت تک کبھی بھی مسلسل
___________________
۱) (سورہ حشر ۹)_
۲) (جامع السعادات ج ۲ص ۱۲۳ مطبوعہ بیروت) _
تین دن تک سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا اگر ہم چاہتے تو بھوکے نہ رہتے مگر ہم نے ایثار سے کام لیا(۱) منقول ہے کہ رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس ایک صحابی آئے ان کی شادی ہوچکی تھی اور ضرورت مند تھے انہوں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے کچھ طلب کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم عایشہ کے گھر میں تشریف لے گئے اور پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے کہ اس دوست کی کچھ مدد کریں عائشہ نے کہا میرے گھر میں ایک زنبیل میں کچھ آٹا رکھا ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے وہ زنبیل مع آٹے کے اس صحابی کے حوالہ کردی پھر اس کے بعد گھر میں کچھ بھی نہ رہا(۲)
دو طرح کے مسائل
الف _ ساءل کے سوال کا جواب
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بے پناہ سخاوت اور بخشش اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی ساءل کو خالی ہاتھ واپس کردیں _'' ماسئل رسول الله شئا قط فقال لا'' (۳) رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کبھی کسی ساءل کے جواب میں انکار نہیں کیا اور یہ صفت آپ میں اسقدر راسخ تھی کہ اگرگھر میں کچھ نہیں ہوتا تھا تب بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے _
___________________
۱) (جامع السعادات ج ۲ص ۱۲۲) _
۲) (شرف النبی صلىاللهعليهوآلهوسلم ص ۷۰) _
۳) (الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ص ۴۴۱)_
عمر نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ سے کچھ طلب کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: میرے پاس کچھ نہیں ہے تم جاو خرید لو اور حساب میرے نام لکھوا دو ، جب میرے پاس ہوگا تو میں ادا کرونگا ، عمر نے کہا اے اللہ کے رسول جس چیز پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم قادر نہیں ہیں اللہ نے اس کی تکلیف آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو نہیں دی ہے عمر کہتے ہیں کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس بات سے ناراض ہوگئے _
اس شخص نے کہا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم عطا فرمائیں اور خدا کی طرف سے کم دیئےانے پر رنج نہ کریں حضرت مسکرائے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمودار ہوگئے(۱)
ب_ کام کرنے کی ترغیب
دوسری طرفرسول صلىاللهعليهوآلهوسلم اکرم سستی ، کاہلی کو ختم کرنے اور سوال کرنے کی عادت چھڑانے کیلئے سوال کرنے والوں کو خود محنت کر کے رزق حاصل کرنے کی تعلیم دیتے تھے _
ایک صحابی کا بیان ہے کہ جب میں تنگ دست ہوگیا میری بیوی نے کہا کاش آپ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس جا کر ان سے کچھ لے آتے وہ صحابی حضور کے پاس آئے جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا کہ جو مجھ سے کچھ مانگے گا میں اس کو عطا کروں گا لیکن اگر بے نیازی کا ثبوت دیگا تو خدا اس کو بے نیاز کردیگا ، صحابی نے اپنے دل میں کہا کہ حضور میرے ہی بارے میں باتیں کررہے ہیں ، اس نے واپس لوٹ کر بیوی سے پورا واقعہ بیان
___________________
۱) (مکارم اخلاق ص ۱۸) _
کیا تو بیوی نے کہا وہ باتیں تمہارے بارے میں نہیں تھیں تم جاکرپیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے اپنی حالت تو بیان کرو وہ صحابی دوبارہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پاس پہونچے ، اس مرتبہ بھی ان کو دیکھ کرحضور صلىاللهعليهوآلهوسلم نے وہی جملہ دہرایا اس طرح تین دفعہ یہ واقعہ پیش آیا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کسی سے ایک کلہاڑی مانگی اور لکڑی کاٹنے کیلئے نکل کھڑا ہوا لکڑیاں شہر لاتا اور ان کو بیچ ڈالتا تھا آہستہ آہستہ وہ صاحب ثروت بن گیا پھر تو اس کے پاس بوجھ ڈھونے اور لکڑی اٹھانے والے جانور بھی ہوگے ، بڑی خوشحالی آگئی ایک دن وہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس پھر پہنچے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے سارا واقعہ بیان کردیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ جو مجھ سے مانگے گا میں عطا کرونگا لیکن اگر کوئی بے نیازی و خود داری سے کام لیگا تو خدا اسکو بے نیاز کردیگا(۱)
دوسری روایت میں ہے :
''و کان صلىاللهعليهوآلهوسلم اذا نظر الی رجل فاعجبه قال هل له حرفة ; فان قیل لا قال: سقط من عینی ، قیل ، کیف ذلک یا رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم قال صلىاللهعليهوآلهوسلم : لان المومن اذ لم یکن له حرفة یعیش بدینه'' (۲)
جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی کی طرف دیکھتے تو اس سے سوال کرتے کہ اس کے پاس کوئی کام ہے وہ کوئی فن و ہنر جانتا ہے ؟ اگر کہا جاتا کہ نہیں تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے کہ
___________________
۱) ( اصول کافی ج۲ ص ۱۱۲باب القناعہ مطبع اسلامیہ عربی ) _
۲) (بحار ج ۱۰۳ ص ۹) _
یہ میری نظروں سے گر گیا ، لوگ سوال کرتے کہ اے اللہ کے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم ایسا کیوں ہے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے تھے کہ اگر مومن کے پاس کوئی فن اور ہنر نہ ہو تو وہ اپنے دین کو ذریعہ معاش بنالیتا ہے_
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بخشش کے نمونے
لباس کا عطیہ
ایک دن ایک عورت نے اپنے بیٹے سے کہاکہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس جاؤ ان کی خدمت میں سلام عرض کرنا اور کہنا کہ کوئی کرتا دیدیں تا کہ میں اس سے قمیص بنالوں ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا میرے پاس کرتا تو نہیں ہے شاید کہیں سے آجائے ( تو میں دیدونگا ) لڑکے نے کہا میری ماں نے کہا ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنی ردا دے دیجئے میں اس کا پیراہن بنالوں گی ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا مجھے اتنی مہلت دو کہ میں حجرہ میں جا کر دیکھ لوں ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم حجرہ میں تشریف لے گئے اور اپنی ردا لاکر اس لڑکے کے حوالہ کردی ، وہ لڑکا ردا لیکر اپنے گھر چلاگیا _(۱)
ایک دن کچھ ایسے افراد پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئے جن کے جسم پر لباس نہیں تھا اور انہوں نے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے لباس کا مطالبہ کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم گھر میں تشریف لے گئے وہاں کچھ بھی نہیں تھا
___________________
۱) (شرف النبی ص ۷۸) _
جناب فاطمہ کے پاس صرف ایک پردہ تھا جس سے کوئی سامان ڈھکا ہوا تھا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا بیٹی کیا تم یہ چاہتی ہو کہ اس پردہ کے ذریعہ دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرو؟ فاطمہ(س) نے جواب دیا ، جی ہاں ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس پردہ کے کئی ٹکڑے کر کے غریبوں میں تقسیم کردیا تا کہ وہ اپنا جسم چھپالیں(۱)
ایک با برکت درہم
ایک دن آٹھ درہم لیکر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اکرم بازار تشریف لے گئے راستہ میں آپ نے دیکھا کہ ایک کنیز کھڑی رو رہی ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے رونے کا سبب پوچھا اس نے بتایا کہ میرے آقا نے مجھے دو درہم دیکر کچھ خریدنے کیلئے بھیجا تھا وہ دونوں درہم کھو گئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دو درہم اس عورت کو دے دیئے اور خود چھ در ہم لیکر بازار کی طرف چلے گئے ، چار درہم کا ایک پیراہن خرید کر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے پہن لیا صلىاللهعليهوآلهوسلم راستہ میں ایک نحیف و لاغر انسان نظر آیا جس کا جسم برہنہ تھا اور وہ آواز لگا رہا تھا کن ہے جو مجھ کو ایک کرتا پہنا دے خدا اس کو بہشت میں جنت کے حلے عطا کریگا ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے وہ لباس جسم سے اتار کر اسکو پہنا دیا دوبارہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بازار تشریف لے گئے اس مرتبہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دو درہم کا ایک لباس خریدا _
___________________
۱) (شرف النبی ص ۷۵) _
واپسی پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دوبارہ اسی کنیز کو راستے میں روتے ہوئے دیکھا ، سوال کرنے پر اس نے بتایا کہ جو خریدنا تھا وہ تو میں خرید چکی لیکن اب گھر جانے میں مجھے دیر ہوگئی ہے مجھے خوف ہے کہ دیر سے گھر پہونچنے پر کہیں میرا آقا مجھے سزا نہ دے _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا مجھ کو اپنے گھر لے چل جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس انصاری کے گھر پہونچے تو وہاں مرد موجود نہ تھے صرف عورتیں تھیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو سلام کیا انہوں نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی آواز پہچان لی مگرجواب نہیں آیا ، یہاں تک کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو تین بار سلام کیا سب نے مل کر جواب دیا : علیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ اور کہا اے اللہ کے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم ہمارے ماں باپ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر فدا ہوجائیں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: کیا تم نے میری آواز نہیں سنی تھی؟ عورتوں نے جواب دیا کیوں نہیں ، مگر ہم چاہتے تھے کہ ہم پر اور ہمارے خاندان پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا زیادہ سلام ہوجائے _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا تمہاری کنیز کو پہنچے میں دیر ہوگئی ہے وہ تم ڈر رہی ہے اس کی سزا معاف کردو ، سب نے ایک ساتھ کہا ہم نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سفارش قبول کی اس کی سزا معاف ہوئی اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے مبارک قدم اس گھر تک آنے کی وجہ سے ہم نے اس کو آزاد کیا _
رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا واپس ہوگئے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا اس سے زیادہ پر برکت میں نے دوسرے آٹھ درہم نہیں دیکھے ایک خو فزدہ کنیز کے خوف کو اس نے دور کیا اس کو آزاد کیا اور دو افراد کی ستر پوشی ہوگئی(۱)
___________________
۱) ( شرف النبی ص ۷۰) _
سخاوت مندانہ معاملہ
منقول ہے کہ ایک دن رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جناب جابر کے ساتھ ان کے اونٹ پر بیٹھ کر کہیں چلے جار ہے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جابر نے فرمایا اس اونٹ کو میرے ہاتھ فروخت کردو جابر نے کہا میرے ماں باپ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر فدا ہوجائیں اے اللہ کے رسول ، یہ اونٹ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہی کا ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا نہیں میرے ہاتھوں فروخت کرو ، جابر نے کہا میں نے فروخت کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بلال سے کہا کہ اس کی قیمت ادا کردو جابر نے پوچھا اونٹ کس کے حوالہ کروں ؟ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا اونٹ اور اس کی قیمت دونوں تم اپنے ہی پاس رکھو خدا تمہارے لئے اس کو مبارک قرار دے(۱)
___________________
۱) (شرف النبی ص ۶۹_ ۶۸)_
خلاصہ درس
۱) پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ خدا نے میری تربیت کی ہے اور میں نے علی کی تربیت کی ہے خدا نے مجھے سخاوت اور نیکی کا حکم دیا بخل اور جفا کاری سے روکا خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بد کوئی چیز نہیں ہے برے اخلاق عمل کو اس طرح فاسد کردیتے ہیں جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _
۲) اخلاق کے سلسلہ میں جس بات پر زیادہ دھیاں دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ بخشش و عطا کرنے والا اس کو اپنی نظر میں بہت بڑا کارنامہ نہ سمجھ بیٹھے _
۳) جود و سخاوت کا سب سے بلند درجہ ایثار ہے اور احتیاج کے باوجو دمال کو خرچ کردینے کا نام ایثار ہے پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی _
۴) رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے دوطرح کے مسائل تھے
الف_ ساءل کے سوال کا جواب
ب_ لوگوں کو کام کرنے کی ترغیب دلانا
سوالات :
۱_ صدقہ کو اگر چھوٹا سمجھا جائے تو صدقہ دینے والے پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے ؟
۲_ امام جعفر صادق نیک کام کیلئے تین خصلتوں کو شرط جانتے ہیں وہ تین خصلتیں کون کون سی ہیں ؟
۳_ ایثار کے کیا معنی ہیں ؟
۴_ ساءل کے ساتھ رسول خدا کی کیا سیرت تھی تفصیل سے بیان فرمایئے
۵_ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بخشش و عطا کے دو نمونے بیان فرمایئے
پندرہواں سبق:
(دعا )
( وقل رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق و اجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا ) (۱)
ای رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم ) آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم یہ دعا مانگا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے (جہاں) پہونچا اچھی طرح پہونچا اور مجھے (جہاں سے ) نکال اچھی طرح نکال اور مجھے ایسی روشن حجت و بصیرت عطا فرما جو میری مدد گار ہو _
اس حصہ میں آپ کے سامنے پیغمبر اکرم حضرت محمد بن عبداللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا کے وہ نمونے ہیں جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا دعاوں سے انس و محبت کا پتہ دیتے ہیں اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پیرو کاروں کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے دعا سیکھنے کا سلیقہ عطا کرتے ہیں _
دعا کیا ہے :
___________________
۱) ( اسراء ۸۰) _
لفظ '' دعا '' یدعو کا مصدر ہے اور لغت کے اعتبار سے پکارنے ، بلانے اور دعوی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی جمع ادعیہ ہے (فرہنگ جدید عربی بہ فارسی ص ۱۵۷) لفظ دعا استغاثہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے(۱)
جس کے ذریعہ خدا کو حاجتیں پوری کرنے کیلئے پکارا جائے اصطلاح میں اس کو دعا کہتے ہیں _ فرہنگ جدید عربی _ فارسی ص ۱۵۷ خدا کی بارگاہ میں تضرع و زاری کے معنی میں لفظ دعا استعمال کیا جاتا ہے(۲) جو چیز خدا کے پاس ہے اس کو تضرع و زاری کے ذریعہ طلب کرنے کو بھی دعا کہتے ہیں_(۳) دعا کے دوسرے معنی بھی بیان کئے گئے ہیں
دعا کی اہمیت اور اس کا اثر :
آیا ت و روایات میں جس طرح علم ، فکر سعی اور کوشش کی تاکید کی گئی ہے ویسے ہی دعا کی بھی تاکید بھی کی گئی ہے_
قرآن مجید میں مومن کو خدا کی بارگاہ میں دعا درخواست اور توسل کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ(۴) معصومین عليهالسلام سے مروی معتبر روایتوں میں بھی دعا کے مقام کو
___________________
۱) ( فرہنگ جدید عربی _ فارسی ص ۱۵۷) _
۲) (لسان العرب ج ۱۴ ص ۲۵۷)_
۳) (تاج العروس ج ۱۰ ص ۱۲۶)_
۴) ( بقرہ آیہ ۲۵۰_ ۲۸۶، ۱۸۶، یونس ۸۸، غافر۶۰)_
بیان کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مقام اللہ تعالی کے نزدیک بلاء و آفات کے دور ہونے اور قضا و قدر کے تبدیل ہونے تک بلند ہے _ رسول اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے ہیں :
''ادفعوا ابواب البلاء بالدعاء '' (۱)
دعا کے ذریعہ بلا و مصیبت کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلو_
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں :
''الدعا یرد القضاء بعد ما ابرم ابراما '' (۲)
قضا کے یقینی ہوجانے کے بعد بھی دعا قضا کو پھیر دیتی ہے_
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی چند چھوٹی چھوٹی حدیثیں ملاحظہ ہوں :
''الدعا هو العباد ه'' (۳)
دعا عبادت ہے _
''ما من شیی اکرم علی الله تعالی من الدعا'' (۴)
خدا کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی شئے مکرم نہیں ہے _
''الدعا مخ العبادة و لا یهلک مع الدعاء احد '' (۵)
حقیقت عبادت دعا ہے جو شخص دعا کرتا ہو وہ ہلاک نہیں ہوتا _
___________________
۱) ( بحار ج ۹۳ ص ۲۸۸)_
۲) ( اصول کافی ج ۲ ص ۴۷ ) _
۳) ( لسان العرب ج ۱۴ ص ۲۵۷)_
۴) ( میزان الحکمہ ج ۳ ص ۲۴۶)_
۵) ( بحار الانوار ج ۹۳ ص ۳۰۰) _
ایک دن پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
''الا ید لکم علی سلاح ینجیکم من اعداءکم ''
کیا میں تم کو ایسے ہتھیارکا پتہ بتاوں جو تم کو دشمن کے شر سے نجات دے؟
اصحاب نے کہا کیوں نہیں ، اے اللہ کے نبی آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
'' تدعون ربکم باللیل و النهار فان سلاح المومن الدعاء'' (۱)
اپنے خدا کو شب و روز پکارتے رہو اسلئے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے_
دعا کی اہمیت کے سلسلہ میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان دعا کے ذریعہ مبدا ہستی ''خدا''سے ہم کلام ہوتا ہے خدا کی لازوال قدرت پر بھروسہ اور اس سے ارتباط مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، اس لئے کہ خدا پر بھروسہ کرنے کے بعد انسان دوسری قوتوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے _
مصاءب سے مقابلہ کرنے کے لئے دعا کرنے والے میں دعا استقامت اور روحی تقویت کا باعث بنتی ہے دعا کرنے والے انسان کے دل میں امید کی کرن ہمیشہ جگمگاتی رہتی ہے اور وہ آئندہ کے لئے لولگائے رہتا ہے_
ان تمام باتوں زیادہ اہم یہ ہے کہ معبود سے راز و نیاز کرتے ہوئے جو دعا کی جاتی ہے وہ روح انسانی کے کمال میں موثر ہوتی ہے ، خدا سے محبت کے ساتھ راز و نیاز اور عشق کے ساتھ گفتگو کے موتی کی قدر و قیمت دنیا اوردنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ ہے_
___________________
۱) ( اصول کافی ج ۲ ص ۴۶۸) _
دعا کے وقت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کیفیت :
آداب دعا کی رعایت سے قبولیت کا راستہ ہموار ہوتا ہے بارگاہ خداوندی میں دعا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان تضرع و زاری سے دعا کرے حضور نبی کریم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا کے وقت کی کیفیت میں لکھا گیا ہے کہ :
''کان صلىاللهعليهوآلهوسلم یرفع یدیه ، اذا ابتهل و دعا کما یستطعم المسکین '' (۱)
آپ دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو بلند فرماتے تھے اور رو رو کر کسی مسکین کی طرح خدا سے حاجت طلب کرتے تھے_
عبادت کے اوقات میں دعا
اذان کے وقت کی دعا :
مسلمانوں کو جن چیزوں کی تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک چیز اذان ہے ، اس کی اہمیت کے لئے بس اتنا جاننا کافی ہے کہ مسلمان دن رات میں کئی بار گلدستہ اذان سے آواز اذان سنتا ہے ، جو کہ نماز اور شرعی اوقات کیلئے ایک اعلان کی حیثیت رکھتی ہے ، اسی وجہ سے صدر اسلام میں موذن کا بڑا بلند مرتبہ تھا ، پہلے موذن کی حیثیت سے حضرت بلال کا نام آج
___________________
۱) ( سنن النبی مرحوم علامہ طباطبائی ص ۳۱۵)_
بھی تاریخ کی پیشانی پر جگمگا رہا ہے ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب موذن کی آواز سنتے تو اذان کے کلمات کو دہرا تے جاتے تھے( اذان کے جملوں کو دہرانے کا عمل '' حکایت اذان'' کہلاتا ہے اور یہ مستحب ہے) اور جب موذن حی علی الصلوة ، حی علی الفلاح ، حی علی خیر العمل کہتا ہے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لا حول و لا قوة الا باللہ فرماتے تھے ، جب اقامت ختم ہوجاتی تو آپ فرماتے : _
''اللهم رب هذه الدعوه التامة و الصلوة القائمه،اعط محمدا سوله یوم القیمة وبلغه الدرجة الوسیلة من الجنة وتقبل شفاعة فی امته'' (۱)
اے وہ خدا جو اس دعوت تام اور قاءم ہونے والی نماز کا پروردگار ہے قیامت کے دن محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خواہشوں کو پورا فرما اور اس درجہ تک پہونچا جو وسیلہ جنت ہے اور امت کی شفاعت کو ان سے قبول فرما _
نماز صبح کے بعد :
نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب تک آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم خداکی بارگاہ میں راز و نیاز اور دعا میں مشغول رہتے تھے، امیرالمؤمنین علی عليهالسلام لوگوں کی حاجتوں اور ضرورتوں کے بارے میں سننے کیلئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پیچھے لوگوں کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے تھے اور لوگ اپنی ضرورتیں آپ عليهالسلام کیسا منے پیش کرتے تھے _(۲)
___________________
۱) ( سنن النبی ص ۳۲۹ منقول از دعاءم الاسلام ج ۱ ص ۱۴۶)_
۲) (سنن النبی ص ۳۳۶)_
نماز ظہر کے بعد :
حضرت علی عليهالسلام سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز ظہر تمام کر لیتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
'' لا اله الا الله العظیم الحلیم ، لا اله الا الله رب العرش العظیم والحمدلله رب العالمین ، اللهم انی اسئلک موجبات رحمتک و عزاءم مغفرتک و الغنیمة من کل خیر و السلامة من کل اثم ، اللهم لا تدع لی ذنبا الا غفرته و لا هما الا فرجته و لا کربا الا کشفته و لا سقما الا شفیته و لا عیبا الا سترته و لا رزقا الا بسطته و لا خوفا الا آمنته و لا سوء الا صرفته و لا حاجة هی لک رضا ولی فیها صلاح الا قضیتها یا ارحم الراحمین آمین رب العالمین '' (۱)
سوائے بزرگ اور حلیم خدا کے کوئی خدا نہیں ہے ، عرش عظیم کے پیدا کرنے والے خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، حمد و سپاس اسی خدا سے مخصوص ہے جو عالمین کا پیدا کرنے والا ہے میرے مالک میں تجھ سے وہ چیز مانگ رہا ہوں جو تیری رحمت و مغفرت کا باعث ہو ، پالنے والے مجھے تمام نیکیوں سے بہرہ مند کردے اور ہر گناہ سے مجھ کو بچالے پالنے والے تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے ، میرے غم و اندوہ کو ختم کردے ، سختیوں کو میرے لئے آسانی کردے میرے سارے رکھ درد کو شفا عطا کر ، عیوب کو
___________________
۱) ( سنن النبی ص ۲۳۶و ۲۳۷)_
چھپالے رزق کو کشادہ کردے خوف کو امن (بے خوفی) میں تبدیل کردے ، میری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے ، میں یہ چاہتا ہوں کہ تو میری ہراس خواہش کو پورا فرما جس میں تیری رضامندی اور میری بھلائی ہو ، اے مہربانی کرنے والوں میں سب سے زیادہ مہربان _ آمین یا رب العالمین _
سجدے میں دعا :
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں کہ سجدہ میںآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے تھے:
''اللهم ان مغفرتک اوسع من ذنوبی و رحمتک ارجی عندی من عملی فاغفرلی ذنوبی یا حیا لا یموت '' (۱)
خدایا تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور تیری رحمت میرے نزدیک میرے عمل سے زیادہ امید بخش ہے پس میرے گناہوں کو معاف کردے اے ایسے زندہ رہنے والے خدا ، موت جس تک نہیں پہنچ سکتی _
دعا اور روزمرہ کے امور
صبح و شام :
خدا کی بارگاہ میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہمیشہ اپنے کو نیازمند سمجھا اور کبھی بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا سے غافل
___________________
۱) ( سنن النبی ص ۳۳۷)_
نہیں ہوئے ، رات کے وقت خاک پر اپنا چہرہ رکھ کر فرماتے تھے :
''الهی لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابدا ''
خدا ایک پلک چھپکنے کی مدت کیلئے بھی مجھ کو میرے نفس کے حوالہ نہ کرنا _
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم صبح کا آغاز دعا سے کرتے اور شام کو دعا پڑھ کر بستر پر آرام کرنے کیلئے لیٹتے تھے، صبح کو فرماتے :
'' اللهم بک اصبحنا و بک امسینا بک نحیا و بک نموت و الیک المصیر'' (۱)
خدایا میں نے تیری مدد سے صبح کی اور تیری مدد سے میں نے رات گزاری تیری وجہ سے میںزندہ ہوں اور جب تو چاہے گا تب میں مروں گا اور ہر شئی کی بازگشت تیری طرف ہے_
کھانے کے وقت کی دعا :
جب دستر خوان بچھایا جاتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے :
''سبحانک اللهم ما احسن ما تبتلینا سبحانک ما اکثر ما تعطینا سبحانک ما اکثر ما تعافینا اللهم اوسع علینا و علی فقراء المومنین والمومنات و المسلمین و المسلمات '' (۲)
___________________
۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۵۷۴)_
۲) ( سنن النبی ص ۳۲۳) _
اے میرے اللہ تو پاک و پاکیزہ ہے وہ کتنی اچھی بات ہے جس کے ذریعے تو نے ہم کو آزمایا ، تونے جو ہم کو عطا کیا ہے وہ کتنا زیادہے ، جو عافیت تو نے ہم کو دی ہے دہ کتنی زیادہ ہے ، خدا ہمارے اور اہل ایمان اور اہل اسلام کے فقراء کی روزی میں کشادگی عطا فرما _
جب کھانا سامنے آتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے :
'' بسم الله ، اللهم اجعلها نعمة مشکورة تصل بها نعمة الجنة'' (۱)
شروع کرتاہوں میں اللہ کے نام سے ، خدایا اس کھانے کو نعمت مشکور قرار دے اور بہشت کی نعمت سے متصل کردے_
جب کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو فرماتے :
''بسم الله بارک لنا فیما رزقتنا و علیک خلفه '' (۲)
شروع کرتا ہوں میں خدا کے نام سے ، پالنے والے جو روزی تونے ہم کو دی ہے اس میں برکت دے اور مزید روزی عنایت فرما _
جب کھانے کا برتن اٹھاتے تو فرماتے :
''اللهم اکثرت و اطبت و بارکت فاشبعت و ارویت الحمد الله الذی یطعم و لا یطعم '' (۳)
___________________
۱) ( سنن النبی ص ۳۲۳)_
۲) ( سنن النبی ص ۳۲۳) _
۳) ( سنن النبی ۳۲۴) _
پالنے والے تو نے ہم کو اپنی کثیر نعمتیں عطا کیں ان نعمتوں کو پاکیزہ اور مبارک قرار دیا ، سیر و سیراب کیا ، حمد و ستائشے اس خدا کیلئے ہے جو کھلاتا ہے لیکن کھاتا نہیں ہے _
وقت خواب کی دعا :
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم داہنی کروٹ لیٹ کر اپنا داہنا ہاتھ اپنے چہرہ کے نیچے رکھ کر فرماتے تھے:
'' اللهم قنی عذابک یوم تبعث عبادک'' (۱)
پالنے والے جس دن تو اپنے بندوں کو قبروں سے اٹھانا اس دن ہم کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا _
دوسری روایت ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے تھے:
'' بسم الله اموت واحیی و الی الله المصیر، اللهم آمن روعتی و استر عورتی وادعنی امانتی ' '(۲)
میری موت و حیات خدا ہی کے نام سے ہے اور اسی کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت ہے خدایا میرے خوف کو امن امین بدل دے میرے عیب کو چھپالنے اور وہ امانت جو تو نے مجھے دی ہے وہ تو ہی ادا کردے_
___________________
۱) ( سنن النبی ص ۳۲۰_۳۲۲)_
۲) ( سنن النبی ص ۳۲۲) _
وقت سفر کی دعا :
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں جب کسی سفر میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنی سواری سے نیچے اترتے تو خدا کی تسبیح پڑھتے جب سواری پر سوار ہوتے تو تکبیر کہتے اور جب رات آجاتی تو فرماتے:
'' ارض ربی و ربک الله ، اعوذ من شرک و شر ما فیک و شر ما یدب علیک و اعوذ بالله من اسد و اسود و من الحیة و العقرب ساکن البلدو والد و ما ولد '' (۱)
اے زمین میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے تیرے شر سے اور جو شئی تیرے اندر موجود ہے اس کے شر سے اور جو چیزیں تیرے اوپر حرکت کر رہی ہیں ان کے شر سے میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اسی طرح ہر درندہ اور ڈسنے والے کے شر سے ہر سانپ بچھو کے شر سے اور ہر اس شخص کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اس دیار میں آباد ہے اسی طرح میں ہر والد اور اس کے فرزند کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں _
جب آپ سفر سے واپس آتے تو یہ دعا پڑھتے:
'' اللهم لک الحمد علی حفظک ایای فی سفری و حضری '' (۲)
پالنے والے تو سفر و حضر میں میری حفاظت کرتا ہے اس لئے میں تیری حمد بجا لاتا ہوں_
___________________
۱) ( سنن النبی ص ۳۱۸)_
۲) ( مکارم الاخلاق ص ۳۶۰)_
مسافر کو رخصت کرتے وقت کی دعا:
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم سے مسلمانوں کو اتنی محبت تھی کہ جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سفر کیلئے نکلتے تو مسلمان آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو رخصت کرنے کیلئے آتے تھے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم رخصت ہوتے وقت ان کیلئے دعا فرماتے تھے _
کسی کو رخصت کرتے وقت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم جو دعا پڑھتے تھے اس کو امام جعفر صادق عليهالسلام نے نقل فرمایا ہے :
''رحمکم الله و زودکم الله التقوی و وجهکم الی کل خیر و قضی لکم کل حاجة و سلم لکم دینکم و دنیاکم و ردکم سالمین الی سالمین'' (۱)
خدا تم پر رحم کرے اور تمہارے تقوی میں اضافہ فرمائے : کارہائے خیر کی طرف تمہارے رخ موڑ دے ، تمہاری تمام حاجتیں پوری کردے ، تمہارے دین و دنیا کو سلامت رکھے تم کو تمہارے گھر تک صحیح و سالم اس حال میں واپس لائے کہ تمہارے گھر والے بھی صحت و عافیت سے ہوں_
___________________
۱) ( محاسن ص ۳۵۴)_
خلاصہ درس
۱) لفظ '' دعا '' مصدر ہے جو کہ '' دعا یدعو'' سے مشتق ہے _ لغت کے اعتبار سے اس کے معنی بلانے اور آواز دینے کے ہیں اس کی جمع '' ادعیہ '' ہے اسی طرح دعا کو استغاثہ کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے_
۲) اصطلاح میں جس کے ذریعہ خدا کو ضرورتیں پوری کرنے کیلئے پکارا جائے اسے دعا کہتے ہیں یا خدا کے پاس جو ذخیرہ ہے اس کو حاصل کرنے کیلئے تضرع و زاری کرنے کا نام دعا ہے_
۳) زیارات و روایات میں جس طرح علم ، فکر ، سعی اور کوشش کے بارے میں تاکیدکی گئی ہے اسی طرح دعا کے سلسلہ میں بھی بڑی تاکید وارد ہوئی ہے_
۴)رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھی دعا کو بہت اہمیت دی ہے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دعا کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے کسی مسکین کی طرح خدا سے اپنی حاجت طلب کرتے تھے_
۵)پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے سے کبھی بھی اپنے کو بے نیاز نہیں کیا آپ رات دن صبح و شام کھانا کھانے کے وقت بستر پر لیٹتے اور سفر میں جاتے وقت دوستوں کو وداع کرتے وقت خدا کی بارگاہ میں دعا کیا کرتے تھے_
سوالا ت
۱_ دعا کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کیجئے؟
۲_دعا کی اہمیت کے بارے میں ایک روایت بیان کیجئے؟
۳_دعا کے وقت رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کیا کیفیت ہوتی تھی ؟
۴_ رسول اکرم دعا کو کتنی اہمیت دیتے تھے اس کا ایک نمونہ پیش کیجئے؟
سولہواں سبق:
(خاص جگہوں پر پڑھی جانیوالی دعا)
مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت پڑھی جانیوالی دعا
حضرت علی عليهالسلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب مسجد میں تشریف لے جاتے تھے تو اس وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے :
''اللهم افتح لی ابواب رحمتک'' (۱)
میرے اللہ میرے اوپر رحمت کے دروازے کھول دے_
مسجد سے نکلتے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم یہ دعا پڑھتے تھے :
''اللهم افتح لی ابواب رزقک '' (۱)
بار الہا میرے اوپر اپنے رزق کے دروازے کھول دے_
___________________
۱) (سنن النبی ص ۳۲۱)_
۲) (سنن النبی ص۳۲۱)_
قبرستان سے گذرتے وقت کی دعا
امام محمد باقر عليهالسلام کا ارشاد ہے : جب رسول اکرم قبرستان کی طرف سے گذرتے تو یہ دعا پڑھتے:
''السلام علیکم من دیار قوم مؤمنین و انا انشاء الله بکم لاحقون'' (۱)
مؤمنین کی طرف سے تم پر سلام ہو، جب خدا چاہیگا ہم بھی تم سے مل جائیں گے
جمعرات کی شام کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ بقیع میں تشریف لے جاتے اور اہل قبور کی زیارت میں تین بار یہ فقرہ دہراتے تھے :
''السلام علیکم اهل الدیار رحمکم الله '' (۲)
اے اس دیار کے رہنے والو تم پر میرا سلام ہو خدا تم پر رحمت نازل کے_
مخصوص اوقات کی دعا
دعائے رؤیت ہلال
علی عليهالسلام فرماتے ہیں: جب پیغمبر نئے ماہ کا چاند دیکھتے تو ہاتھوں کو بلند کرکے فرماتے :
''بسم الله اللهم اهله علینا بالامن و الایمان والسلامة و الاسلام ربی و ربک الله'' (۳)
___________________
۱) (کامل الزیارہ ص ۳۳۲)_
۲) (بحار الانوار ج ۱۰۲ ص ۹۴)_
۳) (سنن النبی ص ۳۴۱ منقول از امالی ج۲ ص ۱۰۹)_
میرے اللہ اس مہینہ کو ہمارے لئے امن، ایمان، سلامتی اور اسلام سے بہرہ ور ہونے کا مہینہ قرار دے_ اے چاند، میرا اور تیرا پروردگار خدا ہے _
ماہ رمضان کے چاند دیکھنے کے بعد کی دعا
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم قبلہ کی طرف رخ کرکے فرماتے تھے:
''اللهم اهله علینا بالامن و الایمان والسلامة بالاسلام والعافیة المجللة و دفاع الاسقام والعون علی الصلوة والصیام تلاوة القرآن اللهم سلمنا لشهر رمضان ، و تسلمه منا و سلمنا فیه حتی ینقضی عنا شهر رمضان و قد عفوت عنا و غفرت لنا و رحمتنا '' (۱)
میرے اللہ اس مہینہ کے چاند کو ہمارے لئے امن، ایمان، سلامتی، اسلام سے بہرہ مندی اور عافیت اور بیماری سے دفاع کا چاند قرار دے اور اس کو نماز ، روزہ اور تلاوت قرآن جیسے کاموں میں مددگار بنا، پالنے والے ماہ رمضان کے اعمال کو انجام دینے کیلئے ہم کو اپنا مطیع قرار دے اور اس کو ہم سے راضی کردے ہم کو بھی اس مہینہ میں صحیح و سالم رکھ یہاں تک کہ ماہ رمضان اسی حالت میں گذر جائے کہ تیرا عفو مغفرت اور رحمت ہمارے شامل حال رہے_
___________________
۱) (سنن النبی ص ۳۴۲ منقول از تھذیب ج ۴ ص ۲۹۶)_
افطار کے وقت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم یہ دعا پڑھتے تھے:
''اللهم لک صمنا و علی رزقک افطرنا فتقبله منا ذهب الظماء و اتبلت العروق و بقی الاجر '' (۱)
خدایا ہم نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے دیئے ہوئے رزق سے ہم نے افطار کیا پس تو ہم سے اس روزہ کو قبول فرماہم پانی اور غذا سے سیر و سیراب ہوگئے اور اس کا اجر باقی ہے _
دعائے روز عرفہ
ایام حج میں ، عبادت اور دعا و مناجات کیلئے بہترین ، جگہ '' عرفات '' کا میدان ہے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین اس دن کو بہت اہمیت دیتے تھے_
امام حسین عليهالسلام کی دعائے عرفہ اس دن کی عظمت و اہمیت کو بیان کرتی ہے ، نیز بتاتی ہے کہ روز عرفہ دعا کیلئے ہے ،پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے ہیں : روز عرفہ کی بہترین دعا اور میرا اور تمام انبیاء کا بہترین کلام یہ ہے :
''لا اله الا الله وحده لا شریک له ، له الملک و له الحمد و هو علی کل شئ قدیر '' (۲)
___________________
۱) (فروع کافی ج۴ ص ۵ مطبوعہ بیروت)_
۲) (الوفاء واحوال المصطفی ج۲ ص ۵۲۴)_
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں حکومت اور ستایش اسی کیلئے ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے _
سال نو کی دعا
سید ابن طاووس نے حضرت امام رضا عليهالسلام اور آپ نے اپنے اباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ماہ محرم سے پہلے رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم دو رکعت نماز پڑھتے اور ہاتھوں کو بلند کرکے فرماتے تھے :
'' اللهم انت الا له القدیم و هذه سنة جدیدة فاسئلک فیها العصمة من الشیطان و القوة علی هذه النفس الامارة بالسوء و الاشتغال بما یقربنی الیک یا کریم، یا ذالجلال والاکرام ، یا عماد من لا عماد له ، یا ذخیرة من لا ذخیرة له ، یا حرز من لا حرز له ، یا غیاث من لا غیاث له ، یا سند من لا سند له ، یا کنز من لا کنز له ، یا حسن البلاء یا عظیم الرجاء، یا عز الضعفاء ، یا منقذ الغرقی یا منجی الهلکی، یا منعم یا مجمل، یا مفضل ، یا محسن ، انت الذی سجد لک سواد اللیل ونور النهار و ضوء القمر و شعاع الشمس ، و دوی الماء و حفیف الشجر ، یا الله لا شریک لک ، اللهم اجعلنا خیر ا مما یظنون و اغفر لنا ما لا یعلمون ، حسبی الله لا اله الا هو علیه توکلت و هو رب العرش العظیم، آمنا به کل من عند ربناو ما یذکر، الا اولوالالباب ، ربنا لا
تزغ قلوبنا و هب لنا من لدنک رحمة انک انت الوهاب '' (۱)
پالنے والے تو میرا قدیم معبود ہے اور یہ نیا سال ہے لہذا تجھ سے میری یہ التجا ہے کہ اس سال (بھی) تو مجھے شیطان کے شر سے محفوظ رکھ ، اور مجھے اس نفس امارہ پر کامیابی عطا فرما اور جو چیز مجھ کو تجھ سے قریب کرے تو اس میں مجھے مشغول فرما، اے کریم اے صاحب جلال و اکرام اے بے سہاروں کے سہارے، اے تہی دست کی امیدوں کے مرکز، اے اس کو دیکھنے والے جس کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے، اے بے کسوں کے فریاد رس ، اے اس شخص کی پناہ گاہ جسکی کوئی پناگاہ نہیں ہے ،میرے معبود تو اس کا خزانہ ہے جس کا کوئی خزانہ نہیں ، اے وہ خدا جس کی جانب سے بلا و مصیبت بھی اچھی چیز ہے سب سے زیادہ تجھ سے امیدیں وابستہ ہیں ، اے وہ جو ناتوان لوگوں کی عزت و شرافت کاباعث ہے ، اے غرق ہونے والوں کو نجات دینے والے ، اے ہلاک ہونے والوں کو بچانے والے، اے نعمتوں کو عطا کرنے والے اے حسن و جمال بخشنے والے ، اے زیادہ سے زیادہ نعمتیں دینے والے ، اے احسان کرنے والے خدا، تو وہ خدا ہے جسے شب کی تاریکی، دن کی روشنی ، چاند کا نور، آفتاب کی ضیاء ، پانی کی صدا اور درختوں کی آواز، غرض کہ سب شئے تجھ ہی کو سجدہ کرتی ہیں اے خدا تیرا کوئی شریک نہیں خدایا لوگ مجھ کو جیسا سمجھتے ہیں اس سے بہتر قرار دے اور جس گناہ کی ان کو خبر نہیں ہے اس کو معاف کردے، میرا خدا میرے لئے کافی ہے اس کے سوا
___________________
۱) (سنن النبی ص۳۳۹)_
کوئی معبود نہیں ، میں اس پر توکل کرتاہوں وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے میں اس پر ایمان لایاہوں، تمام کام ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں لیکن صرف عقلمند ہی سمجھنے والے ہیں ، اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو لغزشوں سے بچا، اپنی طرف سے ہمارے اوپر رحمتیں نازل فرما تو ہی عطا کرنے والا ہے _
جنگ کے وقت دعا
جنگ کے وقت رسول مقبول صلىاللهعليهوآلهوسلم سب سے زیادہ خدا سے مدد مانگتے تھے ۲۳ سالہ زمانہ رسالت میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بہت دشمنوں سے جنگیں کیں ان جنگوں میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بہت سی دعائیں منقول ہیں ملاحظہ فرمائیں_
جنگ بدر میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا
جنگ بدر وہ پہلی لڑائی ہے جس میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ تھے مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ تھی اور تمام کفار کی تعداد ۱۰۸ کے قریب تھی مسلمانون کے پاس جنگی ساز و سامان بہت ہی کم تھا، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جب لشکر کو ترتیب دیتے وقت سامان جنگ کی کمی دیکھی تو دعا کیلئے ہاتھ اٹھاکر فرمایا:
''یا رب انهم حفاة فاحملهم و جیاع فاشبعهم و عراة فاکسهم و عالة
فاغنهم من فضلک '' (۱)
خدایا یہ پیادہ ہیں ان کی سواری کا انتظام فرما یہ بھوکے ہیں ان کو سیر کردے یہ بے لباس ہیں انکو لباس عطا فرما یہ بے بضاعت ہیں انہیں اپنے فضل سے بے نیاز کردے_
بدر کی طرف جاتے ہوئے پیغمبر اکر م صلىاللهعليهوآلهوسلم مقام '' روحا'' پر پہونچے وہاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے نماز پڑھ کر کفار پر لعنت اور مسلمانوں کیلئے دعا کی(۲)
عمومی حملے کیلئے لشکر تیار کرلینے کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنی قیام گاہ پر پہونچے اور وہاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دردمند دل کے ساتھ دعا فرمائی :
'' اللهم ان تهلک هذه العصابة الیوم لا تعبد فی الارض '' (۳)
خدایا اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی(۴)
جب سامان جنگ سے آمادہ قریش کے لشکر پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے فرمایا:
'' اللهم هذه قریش قد اقبلت بخیلاءها و فخرها تمارک و تکذب رسولک، اللهم نصرک الذی و عدتنی اللهم احنهم العداة '' (۵)
___________________
۱) (ناسخ التواریخ ج۱ ص۱۶۴)_
۲) (بحار الانوار ج۱۹ ص ۳۳۲)_
۳) (طبری ج۲ ص ۱۴۹) _
۴) ( فروغ ابدیت ج۱ ص۴۱۹)_
۵) (بحار مطبوعہ بیروت ج۱۹ ص۳۳۷)_
بارالہا یہ قریش ہیں اپنی تمام نخوت و تکبر کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہے ہیں یہ تیرے دشمن ہیں اور تیرے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تکذیب کرتے ہیں پالنے والے میں تیری اس نصرت و مدد کا منتظر ہوں جس کا تونے وعدہ کیا تھا رات آنے سے پہلے انہیں تباہ کردے_
جنگ جب شروع ہوئی تو اس وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کی :
''اللهم انت عضدی و انت نصیری و بک اقاتل '' (۱)
پالنے والے تو میرا پشت پناہ ہے اور میرا مددگار ہے میں تیری مدد سے جنگ کررہاہوں_
جب جنگ میں ابوجھل کے قتل ہونے کی خبر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پہونچی تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
''اللهم انک قد انجزت ما وعدتنی فتمم علی نعمتک'' (۲)
پروردگارا تو نے اپنا وعدہ پورا کیا اب میں چاہتاہوں کہ تو اپنی نعمتیں مجھ پر تمام کردے_
جنگ خندق میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا
ابوسعید خدری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جنگ احزاب (خندق) کے دن جب
___________________
۱) (الوفاء باحوال المصطفی ج۲ ص ۶۷۳)_
۲) (بحارالانوار ج۱۹ ص۳۳۷)_
مسلمانوں کیلئے معرکہ سخت ہوگیا تو ہم رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس گئے اور ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کوئی دعا تعلیم فرمائیں تا کہ ہم اس کو پڑھتے رہیں کیونکہ ہمارے دل گلے تک آگئے ہیں اور ہماری جان لبوں پر ہے ، آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا تم یہ دعا پڑھو :
''اللهم استر عوراتنا و آمن روعاتنا '' (۱)
خدایا اس بے سروسامانی کے عالم میں حفاظت فرما ہماری بے اطمینانی کو اطمینان میں بدل دے _
جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جنگ احزاب میں پیغمبراعظم صلىاللهعليهوآلهوسلم مسجد احزاب میں داخل ہوئے (مسجد احزاب وہی مسجد ہے جو اسوقت مسجدرسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کے نام سے مشہور ہے) آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنی عبا زمین پر ڈال دی اور کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے آپ نے لشکر اسلام کی کامیابی کیلئے دعا کی ، نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر نکلے دوسری مرتبہ پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے آکر دعا کی اور نماز بھی پڑھی_(۲)
عبداللہ بن ابی آدفی فرماتے ہیں پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم جنگ احزاب میں یہ دعا پڑھ رہے تھے:
___________________
۱) (السیرة النبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۲۱۳) _
۲) (النبویہ ج۳ ص ۲۱۴)_
''اللہم انت منزل الکتاب، سریع الحساب اہز الاحزاب اللہم اہزمہم و زلزلہم ''(۲)
خدایا تو کتاب کا نازل کرنیوالا اور بہت جلد حساب کرنیوالا ہے اس احزاب کو فرار پر مجبور کردے خدایا ان کو پسپا کردے اور ان کے پاؤں کو متزلزل کردے_
امام باقر عليهالسلام فرماتے ہیں جنگ احزاب کی رات کو پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ دعا کی :
''یا صریخ المکروبین یا مجیب دعوة المضطرین یا کاشف غمی اکشف عنی غمی و همی و کربی فانک تعلم حالی و حال اصحابی و اکفنی هول عدوی'' (۱)
اے کرب و مصیبت میں مبتلا افراد کی مدد کرنے والے ، اے پریشان حال لوگوں کی دعا سننے والے، اے غم و اندوہ کو برطرف کرنے والے، اے خدا تو میرے حال اور میرے لشکر والوں کے حال سے بخوبی واقف ہے مجھ کو دشمنوں کے خوف سے محفوظ رکھ _
جنگ خیبر میں جب آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنا لشکر لیکر خیبر کے قلعوں کے پاس پہنچے اور اس مضبوط حصار کو دیکھا تو حکم دیا کہ لشکر کو یہیں روک دیا جائے اور پھر دعا کی ;
''اللهم رب السموات السبع و ما اظللن و رب الارضین السبع و ما
___________________
۱) (السیرہ النبویہ ج۳ ص ۲۱۴مجمع البیان ج۸ ص۳۴۵) _
۲) (اصول کافی ج۴ ص۳۴۶ مطبوعہ دفتر فرہنگ اہلبیت علیہم السلام)_
اقللن و رب الشیاطین و ما اضللن و رب الریاح و ما درین ، اسئلک خیر هذه القریة وخیر ما فیها واعوذ بک من شرها و شرما فیها '' (۱)
اے ساتوں آسمانوں اور ان چیزوں کے رب جن پر یہ آسمان اپنا سایہ ڈالتے ہیں اے ساتوں زمینوں اور ان چیزوں کے رب جو ان زمینوں پر موجود ہیں اے شیاطین اور ان کے رب جن کو یہ گمراہ کرتے ہیں اے ہواوں اور ان چیزوں کے خدا جن کو ہوائیں پراگندہ کرتی ہیں میں تجھ سے اس قریہ کی خوبیوں کا طالب ہوں اور ان چیزوں کا طالب ہوں جو اس میں موجود ہیں اور اس قریہ نیز اس میں موجود چیزوں کے برائیوں سے پناہ مانگتاہوں_
بارش برسنے کیلئے دعا
کسی صحابی سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن ہم پر پیاس کا غلبہ ہوا اور ہم لوگوں نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس پہنچے کر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے پانی کا سوال کیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے دعا کیلئے اپنے ہاتھ کو بلند فرمایا تو اس وقت آسمان پر بادل نمایاں ہوئے اور برسات ہوگئی جس سے سب سیراب ہوگئے_
امام جعفر صادق عليهالسلام فرماتے ہیں ایک دن پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں ایک وفد آیا اس نے شکایت کی کہ مسلسل کئی برسوں سے ہمارا شہر قحط کا شکار ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دعا فرمائیں تا کہ بارش
___________________
۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۶۶)_
ہوجائے اور قحط کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے منبر نصب کرنے اور تمام لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم منبر پر تشریف لے گئے آپ نے دعا کی اور لوگوں نے آمین کہا ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ جبرئیل نے آکر بتایا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ فلاں دن ان کے یہاں بارش ہوگی اور پھر اس دن خدا کا وعدہ پورا ہوا(۱)
وقت آخر کی دعا
۲۳ سال تک اسلام کی نشر و اشاعت کرنے اور سختیاں جھیلنے کی بعد جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بیمار ہوئے تو اس وقت بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دعا و مناجات کرتے رہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ایک بیوی کا بیان ہے کہ جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی رحلت کا وقت قریب آگیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے ہاتھ میں پانی لیکر چہرہ پر ملا اور فرمایا :
''اللهم اعنی عن سکرات الموات '' (۲)
پالنے والے موت کی سختی دور کرنے میں میری مدد فرما_
آخری لمحہ میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے منھ سے جو آخری جملہ نکلا وہ یہ تھا :
''رب اغفرلی والحقنی بالرفیق '' (۳)
پالنے والے مجھ کو بخش دے اور مجھ کو میرے دوست سے ملحق کردے_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۸ ص ۲۲)_
۲) (الوفا باحوال المصطفی ج۲ ص ۷۷۶ ، ۷۸۸ )_
۳) (الوفا باحوال المصطفی ج۲ ص ۷۸۶ ، ۷۸۸) _
خلاصہ درس
۱) رسول خدا خاص خاص مقامات پر دعا کرتے تھے مثلاً: مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اور قبرستان سے گذرتے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دعا کرتے تھے_
۲ ) خاص خاص دنوں میں جیسے رویت ہلال کے وقت ، ماہ مبارک رمضان کے آنے پر ، عرفہ کے دن ، سال نو کی ابتدا میں اور جنگ کے وقت آپ دعائیں پڑھتے تھے_
۳ ) پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم جنگ کے موقع پر ہر کام سے پہلے خدا سے مدد طلب فرماتے تھے_
۴) ایک صحابی کی روایت کے مطابق صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مسلمان پیاسے تھے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بارش کیلئے دعا کی _
۵ ) زندگی کے آخری لمحات میں بھی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے خالق کی بارگاہ میں دعا کی اور آخری کلام تھا : رب اغفر لی والحقنی بالرفیق
سوالات :
۱ _ اہل قبور کی زیارت کے وقت حضور نے کیا دعا کی ؟
۲ _ جنگ کے موقع پر آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کیو ں دعا کرتے تھے؟
۳_ جنگ بدر کے عمومی حملہ سے پہلے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کون سی دعا پڑھی ؟
۴ _ جنگ خندق میں کون سی دعا رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اصحاب کو تعلیم دی؟
۵ _ رحلت کے وقت جو آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے آخری دعا پڑھی وہ کون سی دعا تھی؟
سترہواں سبق:
(حسن کلام)
حکمت آمیز باتیں، مواعظ ، دنیاوی اور دینی اوامر کے سلسلہ میں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی حقائق پر مبنی گفتگو نیز پیام الہی کے ابلاغ اور جد و جہد سے بھر پور زندگی دیکھنے کی بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کلام میں کوئی ہنسی مزاق نہیں پایا جاتا،حالانکہ آپ کے اقوال خوش اخلاقی اور برادران دینی کو خوش کرنے والی باتوں پر مبنی ہیں اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا اخلاق ایسا تھا کہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کشادہ روئی اور چہرہ پر تبسم لیے ہوئے ملتے تھے_
روایات سے پتہ چلتاہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کلام حشو و زاءد سے پاک تھا بعض موارد کو چھوڑ کر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ہنسی ، مسکراہٹ سے آگے نہیں بڑھتی تھی ، سکوت بھی طولانی اور فکر انگیز ہوتا تھا، اپنے اصحاب کو بھی آپ اکثر ان باتوں کی طرف متوجہ کرتے تھے_
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم من علامات الفقه، الحلم و العلم و الصمت ان الصمت باب من ابواب الحکمة ان الصمت یکسب المحبة انه دلیل
علی کل خیر '' (۱)
دانا کی علامات میں سے بردباری ، علم اور سکوت ہے سکوت حکمت کے ابواب میں سے ایک باب ہے بلاشبہ سکوت محبت پیدا کرتاہے اور وہ ہر خیر کی طرف راہنمائی کرتاہے_
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم زندگی کو بہت بیش قیمت شےء سمجھتے تھے اسے خواہ مخواہ ہنسی مزاق کی باتوں میں گنوادینا صحیح نہیں جانتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نظر میں کمالات معنوی تک پہنچنے کی راہ میں زندگی کے کسی لمحہ کو بھی برباد کرنا جاءز نہ تھا_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زیادہ تر کوشش یہ تھی کہ عمر کا زیادہ حصہ خدا کی عبادت میں گذرے اس کے باوجود آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لوگوں سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے، ہاں کچھ استثنائی مواقع ایسے تھے جہاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں آتی تھی مثلاً جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم منکر یعنی بری باتوں کو دیکھتے تھے تو ایسے موقع پر ناراض ہوجاتے تھے_
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے زمانہ کے لوگوں نے اس سیرت کا مطالعہ کیا اور جو باتیں نقل ہوکر ہمارے لئے یادگار بن گئیں وہ ان سے مذکورہ بالا حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں_
امام محمد باقر سے روایت ہے :
''اتی رسول الله رجل فقال یا رسول الله اوصنی فکان فیما اوصاه أن
___________________
۱) (کافی ج۳ ص ۱۷۴)_
قال الق اخاک بوجه منبسط '' (۱)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مجھے کچھ تعلیم فرمائیں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملا کرو_
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے بہت سی روایتوں میں مؤمنین کو مسرورکرنے کی تعلیم موجود ہے آپس میں مومنین کو مسرور کرنے کی بہت سے ذراءع ہیں مثلاً تحفہ دینا، ان کے ساتھ تعظیم و تکریم سے پیش آنا خندہ پیشانی اور مزاح_
''قال رسول الله من سر مومناً فقد سرنی و من سرنی فقد سر الله '' (۲)
جو کسی مومن کو مسرور کرے اس نے مجھ کو خوش کیا اور جس نے مجھ کو خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کلام کی شیرینی اور اعلی اخلاق کے بارے میں قرآن کہتاہے:
''فبما رحمة من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک'' (۳)
خدا کی رحمت کے سبب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے لوگوں کے ساتھ نرمی اختیار کی اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کرخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس تتربتر ہوگئے ہوتے_
___________________
۱) (کافی ج۳ ج ۱۶۱)_
۲) (کافی ج۲ ص ۲۷۱)_
۳) (آل عمران ۱۵۹)_
امید ہے کہ آنحضرت کی سیرت مؤمنین کیلئے نمونہ بنے گی اور برادران مومن آپس میں طنز آمیز گفتگو اور مخرب اخلاق لطیفوں سے گریز کریں گے_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کلام کا حسن اور جذابیت
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم تخلیقی طور پر خوبصورت اور اخلاقی طور پر خوش گفتار تھے یہ اوصاف آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اندر اس درجہ تک موجود تھے کہ کمال کے متلاشی دیدہ و دل آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف کھینچنے لگتے تھے یہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شکل میں کوئی عیب تھا اور نہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اخلاق میں کوئی کرختگی تھی ،کم ہنسی بھلائی کے لئے کھلے ہاتھ، خندہ پیشانی سے ملنے والے، بہت غور و فکر کرنے والے، چہرہ پر مسکراہٹ، زباں پر اچھی اچھی باتیں، سخاوت کے ساتھ ، دیر میں غصہ کرنے الے، خوش خو، لطیف طبع اور تمام بری صفات سے مبرا تھے(۱)
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی گفتگو فصیح و بلیغ ہوا کرتی تھی جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مزاح کی بات میں تبسم کے ساتھ باتیں کرتے تو انداز بہت ہی خوبصورت اور دل نشیں ہوجاتا تھا آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کلام کی صفت میں لکھا گیا ہے :
بات کرنے میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح اور شیریں کلام تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود فرماتے ہیں :
___________________
۱) (اقتباس از شرف النبی ص ۶۴)_
میں عرب کا فصیح ترین انسان ہوں، اہل بہشت محمد صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زبان میں باتیں کرتے ہیں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کم سخن اور نرم گفتار تھے جب بات کرتے تھے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم زیادہ نہیں بولتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی باتیں ایسی تھیں جیسے ایک رشتہ میں پروئے ہوئے موتی(۱)
کہا جاتاہے کہ : سب سے کم لفظوں میں باتیں کرنے والے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہی تھے یہ انداز جبرئیل آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر لیکر نازل ہوئے تھے، بہت ہی کم لفظوں میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ساری باتیں کہہ جاتے تھے، افراط و تفریط سے مبرا بہت ہی جامع کلمات آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے دہن مبارک سے نکلتے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم دو باتوں کے درمیان رک جاتے تھے تا کہ سننے والے اسے یاد کرلیں آواز بلند تھی اس میں بہترین نغماہٹ شامل تھی ، زیادہ تر خاموش رہتے تھے، ضرورت کے علاوہ باتیں نہیں کرتے تھے ، کبھی زبان پر کوئی نازیبا بات نہیںآتی تھی ، اور رضامندی اور ناراضگی دونوں ہی صورتوں میں حق کے علاوہ زبان پر کوئی لفظ نہیں آتا تھا_
اگر کوئی برا کہے تو اس کی طرف سے منہ پھیرلیتے اگر باتوں میں مجبوراً کوئی ایسی بات کہنی پڑتی جس کا بیان آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پسند نہیں ہوتا تو اسے کنایہ میں کہہ ڈالتے تھے اور جب خاموش ہوتے تو انکے پاس بیٹھے ہوئے لوگ باتیں کرنے لگتے تو اس وقت اصحاب کے سامنے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چہرہ پر دوسرے افراد سے زیادہ تبسم ہوتا ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لوگوں کے ساتھ بہترین معاشرت رکھتے ، کبھی اتنا ہنستے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جھوٹے دانٹ ظاہر ہوجاتے اور آ پ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی اقتدا و تعظیم میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب تبسم فرماتے تھے(۲)
___________________
۱) (ترجمہ احیاء العلوم ج۲ ص ۱۰۵)_
۲) (ترجمہ احیاء العلوم ج۲ص ۱۰۵۷)_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا مزاح
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی صفت خندہ پیشانی تھی مزاح کی ساتھ اس میں اور بھی اضافہ ہوجاتا تھا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس حد تک مزاح فرماتے کہ کلام معیوب نہ ہوجائے ، جب گفتگو میں عیب جوئی ، غیبت ، تہمت اور دوسری آفتیں بھی ہوں تو وہ گفتگو ناپسندیدہ اور عیب بن جاتی لیکن حضور کی ذات گرامی ان تمام عیوب سے پاک تھی_
مزاح مگر حق
اسلامی تعلیم کے مطابق اگر مزاح میں تمسخر اور تحقیر ہو تو یہ ناپسندیدہ طریقہ ہے لیکن اگر کھیل تماشا ہو بلکہ حق کے قالب میں برادران دینی کو خوش کرنے کیلئے بات کہی جائے تو یہ پسندیدہ طریقہ ہے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے مزاح کی جو باتیں منقول ہیں وہ حقیقت سے خالی نہیں ہیں_
''قال رسول الله; انی لا مزح و لا اقول الا حقا'' (۱)
میں مزاح کرتاہوں مگر حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتا_
''قال علی علیه السلام : کان رسو ل الله صلىاللهعليهوآلهوسلم لیسرا الرجل من اصحابه اذا راه مغموماً بالمداعبة و کان یقول ان الله یبغض المعبس
___________________
۱) (مکارم الاخلاق ص۲۱)_
فی وجه اخیه'' (۱)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے اصحاب میں سے جب کسی کو غم زدہ پاتے تو اس کو مزاح کی ذریعہ خوش کردیتے اور فرماتے تھے خدا کسی ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو اپنے بھائی سے ترش روئی سے پیش آئے_
شہید ثانی کی کتاب '' کشف الریبہ'' میں ہے کہ حسین بن زید کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق عليهالسلام سے ہم نے پوچھا کہ پیغمبر خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مزاح کرتے تھے تو آپ عليهالسلام نے فرمایا:
''وصفه الله بخلق عظیم و ان الله بعث انبیاءه فکانت فیهم کزازة (انقباض ) و بعث محمد بالترافة والرحمة و کا ن من رافته لامته مداعبته لهم لکیلا یبلغ باحد منهم التعظیم حتی لا ینظر الیه '' (۲)
خدا نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خلق عظیم پر فائز کیا ، خدا نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا حالانکہ ان کے اخلاق میں سنجیدگی تھی اور محمد کو اللہ نے مہربانی اور رحمت کے ساتھ مبعوث کیا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مہربانی میں سے اپنی امت کے ساتھ مزاح بھی تھا کہ ایسا نہ ہوکر ان کیلئے عظمت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ انکی طرف نگاہ بھی نہ کرسکتے ہوں_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پیروی کرتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اپنے اصحاب کو مزاح کرنے اور اپنے دینی بھائیوں کو مسرور کرنے کی تعلیم دیتے تھے_
___________________
۱) (سنن النبی ص ۶۰)_
۲) (سنن النبی ص ۶۱)_
''عن یونس الشیبانی قال: قال لی ابوعبدالله کیف مداعبة بعضکم بعضا؟ قلت : قلیلاً : قال : فلا تفعلوا فان المداعبة من حسن الخلق و انک لتدخل بها السرور علی اخیک ، و لقد کان النبی صلىاللهعليهوآلهوسلم یداعب الرجل یدیه به ان یسره '' (۱)
یونس شیبانی نے بتایا کہ امام جعفر صادق عليهالسلام نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مزاح کرتے ہو؟ میں نے کہا بہت کم آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کم کیوں ؟ مزاح تو حسن اخلاق ہے کہ جس کے ذریعہ تم اپنے بھائی کو مسرور کرسکتے ہو رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی مسرور کرنے کیلئے مزاح فرماتے تھے_
مومنین کو مسرور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب وہ غمگین ہوں تو ان سے مزاح کیا جائے روایات میں اس بات کی نصیحت وجود ہے کہ اپنے مومن بھائیوں کو خوش کرو _
امام محمد باقر عليهالسلام نے فرمایاہے :
''تبسم الرجل فی وجه اخیه حسنة و صرف القذی عنه حسنة و ما عبد ''الله بشئ احب الی الله من ادخال السرور علی المؤمن'' (۲)
برادر مومن سے مسکرا کر ملنا نیکی ہے اور اس کے سامنے خس و خاشاک ہٹا دینا بھی نیکی ہے ، خداوند عالم کے نزدیک جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہے وہ مومن کو مسرور کرنا ہے_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۸)_
۲) (اصول کافی ج۳ ص ۲۷۱)_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مزاح کے نمونے
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کبھی لطیف مزاح اور خوبصورت تشبیہ کے ذریعہ لوگوں کو مسرور کردیا کرتے تھے مندرجہ ذیل واقعات اصحاب کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے مزاح اور پیغمبر کے ساتھ اصحاب کے مزاح پر مشتمل ہیں _
۱_ابخشہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے خادم تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زوجہ کے اونٹ کیلئے حدی خونی کرتے تھے ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان سے فرمایا : '' اے ابخشہ آبگینوں کا خیال رکھو''(۱)
(حدی خونی سے اونٹ صحرا میں تیزی سے دوڑنے لگتے ہیں اس جملہ میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ عورتیں نازک اور کمزور ہوتی ہیں اونٹ کی تیز رفتاری سے ممکن ہے ڈرکرعورتیں اونٹوں سے گر پڑیں اور آبگینون کی طرح ٹوٹ جائیں یہ تشبیہ اپنی جگہ پر بڑا ہی لطیف مزاح ہے )_
۲_کسی سفر میں ایک سیاہ فام حبشی رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ تھا، جو تھک جاتا تھا وہ اپنا تھوڑا بوجھ اس کے کاندے پر رکھ دیتا تھا غلام کے کاندھوں پر زیادہ بوجھ ہوگیا رسول خدا کا اسکے پاس سے گذراہوا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: تم کشتی بن گئے ہو پھر اسے آزاد کردیا_(۲)
۳_ ایک بچے سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: '' اے دوکانوں والے فراموش نہ کرنا ''(۳)
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)_
۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)_
۳) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)
۴ _ روایت ہے کہ ایک دن ایک عورت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنے شوہر کانام لیا _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا تیرا شوہر وہی تو ہے جس کی دونوں آنکھوں میں سفیدہ ہے اس عورت نے کہا نہیں ان کی آنکھوں میں سفیدہ نہیں ہے ،وہ عورت جب گھر لوٹی تو اس نے اپنے شوہر کو یہ واقعہ سنایا مرد نے کہ کہا تم نے نہیں دیکھا کہ میری آنکھوں کا سفیدہ سیاہی سے زیادہ ہے(۱)
۵ _ انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے یہ عرض کیا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم میری جنتی ہونے کی دعا فرمادیں_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی، وہ عورت رونے لگی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہنس کر فرمایا کہ کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا _
( انا انشانا هن انشاء فجعلنا هن ابکارا ) (۲)
ہم نے انکو پیدا کیا اور ہم نے ان عورتوں کوباکرہ بنایا ہے _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا مطلب یہ تھا کہ بوڑھی عورتیں جو ان بن کر بہشت میں داخل ہوں گی _
۶_ قبیلہ اشجع کی ایک بوڑھی عورت سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں
___________________
۱) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)
۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۵)
جائیں گی، بلال نے اس عورت کو روتے ہوئے دیکھا تو آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے بیان کیا ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا سیاہ فام بھی نہیں جائیگا بلال بھی رونے لگے ، ادھر سے پیغمبر کے چچا جناب عباس کا گذرا ہوا، انہوں نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے ان کے رونے کا ماجرا بیان کیا تو آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا بوڑھا جنت میں نہیں جائیگا، پھرآپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کی دلجوئی کیلئے ان کو قریب بلاکر کہا بوڑھی عورت اور بوڑھے مرد کو جو ان اور سیاہ فام کو نورانی شکل والا بناکر جنت میں داخل کیا جائیگا(۱)
اصحاب کا مزاح
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت کی بناپر اصحاب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے مزاح کرتے تھے لیکن رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پیروی میں بیجا اور ناپسندیدہ مزاح سے پرہیز کرتے تھے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کبھی ان کے کلام کی شیرینی سے اصحاب ہنسنے لگتے اورآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی تبسم فرماتے تھے_
۱ _ رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم اصحاب کے ساتھ بیٹھے خرما تناول فرمارہے تھے اتنے میں جناب صہیب تشریف لائے صہیب کی آنکھیں دکھ رہی تھی اس لئے انہوں نے ان کو کسی چیز سے ڈھک رکھا تھا، صہیب بھی خرما کھانے لگے، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا ; صہیب تمہاری آنکھیں دکھ رہی ہیں پھر بھی تم میٹھا کھارہے ہو؟ صہیب نے کہا اے اللہ کے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم میں
___________________
۱) ( بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۵)_
اس طرف سے کھارہاہوں جدھر درد نہیں ہے(۱)
۲ _ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اعراب (دیہاتیوں) سے مزاح کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ ابوہریرہ نے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نعلین مبارک کو گرو رکھ کر خرمے لے لئے اور رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سامنے بیٹھ کر اس خرمے کو کھانے لگا، آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے پوچھا ابوہریرہ تم کیا کھارہے ہو ؟ ا س نے عرض کی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا جوتا(۲)
۳ _ نعمان بہت ہی بذلہ سنج تھے ایک دن نعمان نے دیکھا کہ ایک عرب شہد کا چھتہ بیچ رہا ہے نعمان نے اس کو خرید لیا اور عائشہ کے گھر لیکر پہنچے اس وقت عائشہ کی باری تھی رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سمجھا کہ نعمان تحفہ لائے ہیں_
نعمان شہد دیکر چلے گئے اور وہ اعرابی دروازہ پر کھڑا انتظار کرتا رہا ، جب بہت دیر ہوگئی تو اس نے آوازدیدی کہ اے گھر والو اگر پیسے نہ ہوں تو میرا شہد واپس کردو رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم سمجھ گئے اورآپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے شہد کی قیمت ادا کردی ، پھر نعمان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کو شہد بہت مرغوب ہے اور اعرابی کے پاس شہد بھی موجود ہے اسلئے میں نے شہد لے لیا آنحضرت ہنسنے لگے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کچھ نہیں کہا(۳)
___________________
۱) (شرف النبی ص ۸۴)_
۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۹۶)_
۳) (بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۶)_
۴ _ ایک دن رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور حضرت امیر المؤمنین عليهالسلام ساتھ بیٹھے ہوئے خرمہ کھا رہے تھے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم خرمہ کھالیتے اور اس کی گٹھلی آرام سے حضرت علی کے آگے رکھ دیے تھے جب خرمہ ختم ہوا آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : جس کے سامنے گٹھلیاں زیادہ ہیں اس نے زیادہ خرمہ کھایاہے ، حضرت علی عليهالسلام نے فرمایا جو خرمہ مع گھٹی کے کھاگیا اس نے زیادہ کھایاہے علی عليهالسلام کی بات کو سن کر آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم مسکرانے لگے اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے علی کو ہزاردرہم انعام دینے کا حکم دیا(۱)
مذکورہ مزاح کے نحوتوں سے معلوم ہوتاہے کہ :
_آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے مزاح کے دامن میں عزت کلام محفوظ رہتی ہے _
_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی گفتگو سے نہ کسی کا استہزاء ہوتا اور نہ کسی کی تحقیر_
_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ہنسی بہت کم مواقع کو چھوڑ کر تبسم کی حد سے آگے نہیں بڑھتی تھی_
_ مؤمنین کو مسرور کرنے کیلئے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم مزاح فرماتے تھے_
غرضیکہ مومنین کو مسرور کرنے کی کوشش ، خندہ پیشانی ، تبسم اور مزاح سیرت رسول ہے لیکن اس بات کا دھیان رہے کہ اس میں نہ کسی کا مذاق اڑایا جائے اور نہ کسی کی تذلیل و تحقیر کی جائے_
___________________
۱) (کتاب الخزاءن ص ۳۲۵ احمد نراقی)_
خلاصہ درس
۱)آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اقوال میں خوش اخلاقی ، خندہ پیشانی، مؤمنین کو مسرور کرنے نیز آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اخلاق میں متبسم چہرہ کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں _
۲ ) قرآن کریم اخلاق پیغمبر کی خبر دیتے ہوئے بیان کرتاہے کہ '' خدا کی رحمت سے آپ نے مؤمنین کے ساتھ نرمی اختیار کی اگر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کرخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس سے بھا گ کھڑے ہوتے_
۳ )آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کلام بہت ہی فصیح بلیغ ہوتا تھا اور جب مزاح کے قالب میں تبسم کیساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم گفتگو فرماتے تو کلام اور بھی زیادہ خوبصورت ہوجاتا تھا_
۴ )رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مزاح فرماتے تھے لیکن اس بات کی رعایت رکھتے تھے کہ گفتگو معیوب اور حقیقت سے عاری نہ ہوجائے_
۵ ) رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پیروی کرتے ہوئے ائمہ معصومین علیہم السلام بھی اپنے اصحاب کو مزاح اور بذلہ سنجی کی ذریعہ اپنے دینی بھائیوں کو مسرور کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے_
سوالات
۱ _ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پسندیدہ اخلاق کے بارے میں قرآن کیا کہتاہے ؟
۲ _ لوگوں سے ملتے اور باتیں کرتے وقت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا انداز ہوتاتھا؟
۳ _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کس طرح کا مزاح کرتے تھے؟
۴ _ مزاح کی اہمیت بیان کیجئے؟
۵ _ اصحاب کیسا تھ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے مزاح کا ایک نمونہ بیان کیجئے؟
اٹھارہواں سبق:
(تواضع )
لغت میں تواضع کے معنی فروتنی اورکسر نفسی کے ہیں_(۱)
علمائے اخلاق کے نزدیک تکبر کی ضد اور ایسی کسر نفسی( منکر المزاجی )کو تواضع کہتے ہیں جس کی بنا پر انسان دوسروں پر فوقیت اور خصوصیت کا اظہار نہیں کرتا _
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مکمل طور فروتنی او ر تواضع کے زیور سے آراستہ تھے ، خدا کی بھیجے ہوئے انبیاء کی تواضع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جلال و جبروت کو دیکھ کر لوگ ان سے وحشت محسوس نہ کریں بلکہ خدا کی خاطر ان پر ایمان لائیں_
اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین عليهالسلام فرماتے ہیں : اگر انبیاء کے پاس بہت زیادہ قوت و طاقت اور شان و شوکت اور حکومت ہوتی تو ان کے سامنے لوگوں کے سرجھک جاتے ان کے دیدار کیلئے لوگ دور ودراز سے سفر کرکے ان کے پاس
___________________
۱) (فرہنگ دہخدا مادہ تواضع )_
آتے ، یہ بات پیغام کی قبولیت کیلئے بڑی آسانی فراہم کرتی در ان میں خود پسندی ختم ہو جاتی ، خوف کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لاتے یا دولت و ثروت کی لالچ میں ان کی طرف متوجہ ہوتے لیکن ، خدا نے چاہا کہ پیغمبروں کی پیروی ان کی کتاب پر یقین ، ان کے فرمان کا اجراء اور ان کی اطاعت خود انہیں سے مخصوص ہو اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو _(۱)
انبیاء کرام کے درمیان رسول اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کا مرتبہ سب سے بلند تھا اور ایک زمانہ میں حکومت الہی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس تھی کہ جیسے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود تشکیل دیا تھا اس کے باوجود تواضع اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ کہیں سے کبر و غرور کا شاءبہ بھی نظر نہیں آتا تھا_
حضرت امیر المؤمنین حضور نبی اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے تواضع اور انکساری کو بیان فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے ہاتھوں سے اپنے جوتے ٹانکتے اور کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے ، جوپائے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے اور اپنے ساتھ سواری پر دوسروں کو بھی سوار کرتے تھے_(۲)
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی کا مطالعہ ہم کو اپنا کردار سنوارنے میں مدد دیتا ہے ، امید ہے کہ یہ تحریر اس راستہ میں ایک اچھا قدم ثابت ہوگی _
یہ بھی یاد دینا ضروریکہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تواضع اور انکسار کے سلسلے میں اس باب میں جو کچھ نقل کیا
___________________
۱) ( نہج البلاغہ 'فیض' خ۲۳۴ فراز ۲۶) _
۲) (نہج البلاغہ ' فیض 'خ ۱۵۹ فراز ۲۲) _
گیا ہے وہ ایک بڑے ذخیرہ کا بہت تھوڑا حصہ ہے ، ورنہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پوری زندگی انکساری اور فروتنی کا اعلی نمونہ ہے_
بادشاہ نہیں ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ایک بہت ہی واضح صفت انکساری اور فروتنی کی صفت ہے ، مختلف حالات میں معاشرہ کے مختلف طبقہ کے افراد کیسا تھ اس صفت کا مظاہرہ نظر آتا ہے شروع میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اصحاب کو یہ درس دیا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ حاکموں اور فرمان رواؤں جیسا برتاو نہ کریں ، جیسا کہ اس شخص سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے قریب آکر سہما ہوا تھا:
''هون علیک فلست بملک اتما انا بن امراة تاکل القدید '' (۱)
ذرا سنبھل جاو ( ڈرو نہیں ) میں بادشاہ نہیں ہوں میں اس عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہو گوشت کھاتی تھی _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو بہت دوست رکھتے تھے اس کا باوجود آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تربیت کے زیر اثر وہ جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو دیکھتے تھے تو ( اگر بیٹھے ہوتے تو ) کھڑے نہیں ہوتے تھے اسلئے کہ وہ جانتے تھے کہ اس عمل سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خوش نہیں ہوتے _(۲)
___________________
۱) (محجہ البیضاء ج ۶ص ۲۷۶)_
۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۶ طبع بیروت )_
جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ابو ایوب کا مکان دو منزلہ تھا ابو ایوب نے احتراما یہ چاہا کہ آ پ صلىاللهعليهوآلهوسلم اوپر والے طبقہ میں قیام فرمائیں لیکن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے قبول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا : جو مجھ سے یہاں ملنے آئیگا ان کیلئے نیچے کا طبقہ زیاہ بہتر رہے گا_(۱)
اس طرح کے سلوک کا یہ اثر ہوا کہ لوگ اپنی تمام مشکلات کے حل کیلئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ زندگی کے عام معاملات میں بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے مشورہ کیا جاتا تھا_
ایک دیہاتی آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچا اور اس نے کہا اسے اللہ کے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم میں چند اونٹ لایا ہوں ان کو بیچنا چاہتا ہوں ، لیکن بازار کا بھاو نہیں معلوم اس لئے ڈر لگتا ہے کہ لوگ کہیں دھو کہ نہ دیدیں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : کہ تم اپنے اونٹوں کو میرے پاس لاکر ایک ایک اونٹ کو دکھاو ، اس طرح آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اونٹوں کو دیکھ کر ہر ایک کی قیمت بتادی ، اعرابی نے بازار جاکراسی قیمت پر اونٹ فروخت کردئے پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں پہنچ کر اس نے کہا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے میری رہنمائی کی ، نتیجہ میں جتنا چاہتا تھا اس سے بھی زیادہ فائدہ حاصل ہوا_(۲)
___________________
۱) (بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۰۹)_
۲) ( شرف النبی ص ۷۵)_
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے انکسار اور تواضع نے لوگوں کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے اتنا نزدیک کردیا تھا کہ اصحاب اپنے بچوں کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں لیکر آتے اور کہتے کہ ان کے لئے دعا فرمادیں یا انکا نام رکھدیں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بچوں کو ان کے گھر والوں کے احترام میں اپنی گود میں بٹھا لیتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بچہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا دامت تر کردیاتا لوگ متوجہ ہونے کے بعد زور سے چلانے لگتے ، لیکن آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے کہ بچے کو نہ ڈراؤ ، دعا کردینے یا نام رکھ دینے کے بعد بچہ کے عزیز و اقربا اس بات پر خوش ہوجاتے کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا : جب وہ لوگ چلے جاتے تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنا پیراہن دھوڈالتے _(۱)
بشریت کی نگاہوں نے تواضع کا ایسا نمونہ کبھی نہیں دیکھا اگر یہ منظر کہیں نظر آیا تو وہ انبیاء یا جانشینان انبیاء عليهالسلام ہی کے یہاں ، ان مقدس ہستیوں نے اپنے اصحاب کو تواضع کا صحیح سلیقہ سکھایا اور ذلت میں ڈالنے والی باتوں سے منع فرمایا :
منقول ہے کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جب کبھی سواری پر سوار ہوتے تو کسی کو پیدل چلنے کی اجازت نہ دیتے اس کو اپنی سواری پر سوار کر لیتے ، اگر کوئی شخص سوار نہیں ہوتا تو فرماتے : تم آگے جاو پھر جہاں چاہنا مجھ سے آکر مل جانا _(۲)
___________________
۱) (مکارم الاخلاق ص ۲۵)_
۲) (مکارم الاخلاق ص ۲۲)_
امام جعفر صادق عليهالسلام سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنین عليهالسلام اصحاب کے قریب سے کسی سواری پر سوار ہو کر گذر رہے تھے کچھ لوگ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پیچھے پیچھے پیدل چلنے لگے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے پوچھا کہ کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں لیکن ہمیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کیسا تھ چلنا اچھا لگتا ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا واپس جاو اس لئے کہ سوار کیساتھ پیدل چلنے سے سوار کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے اور پیدل چلنے والے کیلئے یہ ذلت کا باعث ہے_(۱)
اصحاب کے ساتھ تواضع
جو اصحاب کسی پوشیدہ خزانہ کی طرح انجانی جگہوں پر پڑے ہوئے تھے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تواضع سے وہ شمع نبوت کے پروانے بن گئے اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو جاودانہ معنویت کی دولت سے مالا مال کردیا _ غریبوں ، غلاموں اور ستم رسیدہ افراد کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ایسا مومن بنادیا جو راہ اسلام میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کیلئے تیار تھے _ وہ اپنے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خدا کا بندہ کہتے تھے اور اس پر فخر و مباہات کرتے تھے اسی وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم غلاموں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے_
امام جعفر صادق عليهالسلام سے منقول ہے کہ ایک بد زبان عورت کاآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے قریب سے گذر ہوا جبکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کچھ غلاموں کے ساتھ بیٹھے کھانا تناول فرما رہے تھے ، عورت نے کہا
___________________
۱) (بحار الانوار ج ۴۱ص ۵۵)_
اے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم آپ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے ہیں اور غلاموں کی طرح بیٹھے ہیں رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : وائے ہو تجھ پر کون سا غلام مجھ سے بڑا غلام ہے ؟ اس عورت نے کہا پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے کھانے میں سے ایک لقمہ مجھ کو دیں ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ایک لقمہ اسے دیا اس عورت نے کہا نہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنا جھوٹا مجھ کو عنایت فرمائیں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنا جھوٹا ایک لقمہ اسے دیدیا ، اس عورت نے لقمہ کھالیا امام عليهالسلام فرماتے ہیں کہ جب تک وہ عورت زندہ ہی کبھی مرض میں مبتلا نہیں ہوئی_(۱)
اصحاب کے ساتھ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نشست کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے اصحاب کے درمیان جب بیٹھے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ان ہی میں سے ایک ہیں اگر کوئی انجان آدمی آجاتا تو وہ پوچھے بغیر نہیں سمجھ سکتا تھا کہ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کون ہیں ،اصحاب نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کیلئے ایک ایسی جگہ کا بندو بست کرنا چاہا کہ آنے والے انجان افراد اس کی وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو پہچان لیں پھر ان لوگوں نے مٹی کی ایک اونچی جگہ بنائی اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس پر بیٹھنے لگے_(۲)
یہی مٹی کا چھوٹا سا چبو ترہ تھا جس نے محل میں بیٹھنے والے بادشاہوں کو ہلادیا اور یہ متواضعانہ اور سادہ بزم تھی جس نے ایک دن دنیا کی تصویر بدل دی _
___________________
۱) (مکارم الاخلاق ص ۱۶)_
۲) ( محجة البیضاء ج ۶ ص ۱۵۱)_
اصحاب کیساتھ گفتگو کا انداز :
اصحاب کے ساتھ بات کرتے وقت ان کو بھی گفتگو کرنے اور اظہار نظر کی اجازت دیتے تھے_ اگر کبھی بزم میں ان میں سے کوئی بات چھیڑتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سلسلہ کو منقطع نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا ساتھ دیتے تھے_
اصحاب کا دل رکھنے اور ان کی تواضع کے لئے اگر کسی نشست میں آخرت کا ذکر ہوتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس میں شرکت فرماتے اور اگر کھانے پینے کا ذکر چھٹر جاتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس میں بھی شریک ہوجاتے تھے ، اگردنیا کا ذکر ہوتا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس بحث میں بھی شامل ہوجاتے _ کبھی اصحاب زمانہ جاہلیت کا شعر پڑھتے اور کسی چیز کو یاد کرکے ہنستے ، تو آپ بھی تبسم فرماتے اور لوگوں کو حرام باتوں کے علاوہ کسی چیزسے منع نہیں کرتے تھے_(۱)
فروتنی کے ساتھ ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے اصحاب کے ساتھ شفقت و محبت بھی فرماتے تھے ، جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے اصحاب کے پاس پہنچتے تو جس طرح معمول کے مطابق شفقت و محبت کی جاتی ہے اسی طرح آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم انکے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے تھے_
___________________
۱) (محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۵۲)_
بچوں کے ساتھ تواضع کے ساتھ برتاو
بچے مستقبل کے معاشرہ کے معمار ہوتے ہیں لیکن عام طور پر اپنی کم سنی کی وجہ سے بزرگوں کی نظروں سے دور رہتے ہیں ، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ان پر حقارت کی نظر ڈالے ، لیکن رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے صرف یہ کہے ان کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ ان کے ساتھ تواضع کا برتاوکرتے ،ان کو اھمیت دیتے اور ان کا احترام کرتے تھے_
روایت ہے کہ جب رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم انصار کے بچوں کو دیکھتے تو ان کے سرپردست شفقت پھیرتے انہیں سلام کرتے او رانکے لئے دعا فرماتے تھے _(۱)
ایک دن آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کچھ بچوں کے پاس گئے ان کو سلام کیا اور ان کے در میان غذائیں تقسیم کیں_(۲)
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے زمانہ میں یہ طریقہ تھا کہ جب مسافر لوٹ کروطن آتے تھے تو اس وقت ان کے استقبال کو بچے آتے تھے ،آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم ان بچوں کے ساتھ بہت تواضع سے ملتے اور ان پر مہربانی فرمایا کرتے تھے _
جب رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم سفر سے واپس لوٹتے اور بچے آپکا استقبال کرنے کیلئے آتے ،تو آپ فرماتے کہ ان کو سوارکر لوکچھ بچوں کو چوپائے کے اگلے حصہ پر او رکچھ کو پچھلے حصہ پر
___________________
۱) (شرف النبی ص ۶۵)_
۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۶)_
سوار کرلیتے اور کچھ بچوں کیلئے اپنے اصحاب سے فرماتے کہ تم ان کو سوار کر لو اس کے بعد بچے ایکدوسرے پر فخر کرتے تھے بعض بچے کہتے تھے کہ مجھ کو رسول خد ا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے سوار کیا تھا اور تم کو اصحاب نے سوار کیا تھا _(۱)
زندگی کے تمام امور میں فروتنی
سادہ بے داغ صداقت پر مبنی ، ظاہر داری سے پاک ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی ایک آزاد او رمتواضع انسان کی زندگی تھی ،گھر او رگھر سے باہر معاشرہ کے مختلف طبقوں کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زاہدانہ اور تکلف سے پاک زندگی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے انکسار او رفروتنی کی داستان بیان کرتی ہے _
امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی عبابستر کا کام او رتکیہ کی جگہ ایک کپڑے میںخرمے کی چھال بھری ہوتی تھی، ایک رات لوگوں نے اس بستر کو دہرا کردیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : کہ کل رات کی بستر نماز شب کیلئے اٹھنے سے مانع تھا ، پھر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے حکم دیا کہ ایک بستر سے زیادہ بستر نہ بچھایا جائے_(۲)
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس کھال کا ایک بستر تھا جس میں خرمہ کی چھال بھری ہوئی تھی ، ایک عبا تھی
___________________
۱) (شرف النبی ص ۸۵)_
۲) (مکارم الاخلاق ص ۳۸)_
جب آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کہیں دوسری جگہ جاتے تو عبا دوہری کرکے بچھالیتے ، بیٹھنے کیلئے بھی خرمہ کی جھال سے بھری ہوٹی ایک کھال پہچادی جاتی اسی پر بیٹھتے تھے اور ایک فدک کی چادر تھی اسی کو اپنے جسم پر لپیٹ لیتے تھے ایک تولیہ نما مصری چادر او ربالوں سے بنا ہوا ایک فرش بھی تھا جس پر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بیٹھتے اور کبھی کبھی اسی پر نماز بھی بڑھتے تھے _(۱)
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ایک زوجہ فرماتی ہیں کہ سماجی کاموں سے فرصت پانے کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنا کپڑا سیتے،اپنی جوتیاں ٹانکتے اور جو کام گٹروں میں مرد کیا کرتے ہیں وہ سارے کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے نیز فرماتی ہیں کہ ہر کام سے زیادہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو خیاطی پسند تھی_(۲)
ذاتی کاموں میں مدد نہ لینا
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا اپنے ذاتی کاموں کو انجام دینا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی متواضع شخصیت کے کمال کی علامت ہے ذاتی کاموں کے انجام دینے میں آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا اپنے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو دوسروں سے ممتاز نہ سمجھنا بذات خود آپکی ذات کو خصوصی امتیاز دیتا ہے _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے کپڑے میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا تے' جوتے ٹانکتے ،گھر کا دروازہ
___________________
۱) (مکارم الاخلاق ص ۳۸ )_
۲) (مکارم الاخلاق ص ۱۷)_
کھولتے بھیٹروں او راونٹ کا دودھ دوہتے'اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھتے 'خادم جب آٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تواس مدد کرتے ' نماز شب کیلئے وضو کرنے کی غرض سے خود پانی لاتے ،گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرتے اور گوشت کے ٹکڑے کاٹتے _(۱)
اپنے کاموں کو اپنے ہاتھوںسے اس طرح انجام دیتے تھے کہ اصحاب اگر مدد کرنے کی بھی کوشش کرتے تو منع دیتے تھے_
ایک سفر میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نماز کیلئے اپنی سواری سے ا ترے ، نماز کی جگہ پر کھڑے ہونے کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پھر پلٹ گئے اصحاب نے وجہ پوچھی تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے اونٹ کے پیر نہیں باندھے تھے میں نے چاہا کہ اس کے پیر باندھ دوں اصحاب نے کہا کہ یہ کام ہم کئے دیتے ہیں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی اپنا ذاتی کام دوسروں سے کرائے ، چاہے دہ مسواک کیلئے ایک لکڑی ہی لانے کا کام کیوں نہ ہو_(۲)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی انکساری کے دوسرے نمونے
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اندر تواضع کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی اس وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی زندگی کے تمام شعبوں میں فروتنی کا مظاہرہ نظر آتا ہے _
___________________
۱)(بحارالانوارج ۱۶ص۲۲۷)_
۲) (شرف النبی ص ۷۵ عبارت میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ )_
لباس کے بارے میں منقول ہے :
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم لمبا لباس ( شملہ ) پہنتے تھے ، ایک ہی کپڑے سے قمیص اور شلوار بناتے تھے _ یہ کپڑا آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جسم پر بہت زیب دیتا تھا اور کبھی وہی لمبا لباس ( شملہ ) پہن کر لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے_(۱)
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے معنوی قد و قامت کیلئے مہنگا اور طرح طرح کے رنگ برنگ کپڑے زیبانہ تھے اس لئے کہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم دنیا کی رنگینوں کی حقیقت سے واقف تھے اور اسے ٹھکرا چکے تھے_
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے تواضع اور انکسار میں یہ بات بھی داخل تھی کہ : آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مریض کی عیادت کیلئے جاتے ، تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ، غلاموں کی دعوت کو قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہوتے_(۲)
تاریخ گواہ ہے کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے انکسار اور تواضع کی وجہ سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ہیبت اور شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی بلکہ یہی انکساری سربلندی اور عزت کا ذریعہ بن گئی ، تھوڑی ہی مدت میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شہرت دنیا میں پھیل گئی اور آج گلدستہ اذان سے وحدانیت کی شہاوت کے ساتھ ساتھ رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی رسالت کا اعلان بھی دنیا میں گونج رہا ہے _
___________________
۱) (ترجمہ مکارم اخلاق ص ۶۹ مطبوعہ بیروت)_
۲) (مکارم اخلاق ص ۱۵) _
تواضع کے بارے میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہی کے ایک قول پر میں اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں _
طوبی لمن تواضع فی غیر مسکنة و انفق مالا جمعه من غیر معصیة و رحم اهل الذل و المسکنه و خالط اهل الفقه و الحکه (۱)
بڑا خوش نصیب ہے وہ شخص جو فقر اور بیچارگی کے علاوہ تواضع کرے اور اس مال کو خرچ کرے جس کو گناہوں سے جمع نہیں کیا ہے اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں پر رحم کرے اور اہل حکمت و دانش کے ساتھ زندگی گزارے_
___________________
۱) (جامع السعادات ج ۱ ص ۳۹۵ طبع بیروت ) _
خلاصہ درس
۱) لغت میں تواضع کے معنی فروتنی اور انکسار کے ہیں اور علمائے اخلاق کی اصطلاح میں تکبر کی مخالف ایک صفت ہے اور ایسی کسر نفسی کہ جس میںانسان دوسروں پر اپنی فضیلت و فوقیت نہ جتائے _
۲) فروتنی کے زیور سے تمام انبیاء آراستہ تھے _ ان کے تواضع سے پیش آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جلال و جبروت اور عظیم مقام سے خوف کی بنا پر لوگ ایمان نہ لائیں بلکہ خدا کی خاطر ایمان قبول کریں _
۳)فروتنی ، اور انکسار ی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی وہ نمایاں صفت تھی جو زندگی کے مختلف حالات میں اور معاشرہ کے دوسرے مختلف طبقات سے میل جول کے وقت لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتی تھی_
۴) غریبوں ، غلاموں اور مظلوموں کیساتھ رہ کر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ اسلام کے راستہ میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک پیش کردینے پر تیار تھے_
۵) آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم بچوں کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آتے تھے ان کو اہمیت دیتے اور انکا احترام کرتے تھے _
۶) آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سادہ ، پاکیزہ ، سچی اور ظاہر داری سے مبرا زندگی آپ کے آزاد اور منکسر رویہ کی زندہ دلیل ہے _
سوالات :
۱_ تواضع کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کیجئے ؟
۲_ انبیائے خدا کیوں تواضع فرماتے تھے ؟
۳_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تواضع کو امیرالمومنین کی روایت کی روشنی میں بیان کیجئے ؟
۴_ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے تواضع کی ایک مثال پیش کیجئے ؟
۵_ بچوں کے ساتھ حضور کا کیا سلوک تھا؟
انیسواں سبق:
(پاکیزگی اور آرائش)
اسلامی تہذیب میں جسم کو آلودگی سے پاک و پاکیزہ رکھنا ، روح کو پلیدگی سے بچانے اور نفس کو آب توبہ سے دھونے کے برابر اہمیت حاصل ہے _
( ان الله یحب التوابین و یحب المتطهرین ) (۱)
بیشک خدا بہت زیادہ توبہ کرنیوالوں اور پاک و پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے_
چونکہ متطہرین سے مراد طہارت معنوی اور ظاہری دونوں طہارتوں کے حامل افراد ہیں_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ علیہم السلام سے بہت سی روایتوں میں صفائی ، اپنے کو آراستہ کرنے اور ان باتوں کو روح کی شادابی اور جسم کی سلامتی سے مربوط قرار دیا گیا ہے ، اس
___________________
۱) بقرہ ۲۲۲_
سے اسلام کی نظر میں طہارت کی اہمیت اور قدر و قیمت ظاہر ہوتی ہے نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ طہارت کا انسانی زندگی کو سنوار نے میں کیا اثر ہے _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اس حوالے سے چند فرامین کا انتخاب کیا گیا ہے :
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم ان الاسلام نظیف فتنظفوا فانه لا یدخل الجنة الا نظیف'' (۱)
بے شک اسلام خود پاکیزہ ہے لہذا تم بھی پاک و پاکیزہ رہو جو پاک و پاکیزہ نہیں ہے وہ جنت میں نہیں جائیگا _ بس پاکیزہ افراد ہی جنت میں داخل ہوں گے_
''ان الله تعالی طیب یحب الطیب ، نظیف یحب النظافة '' (۲)
بے شک خدا طیب ہے اور وہ خوشبو کو دوست رکھتا ہے وہ پاک ہے اور پاکیزگی کو دوست رکھتا ہے_
''ان الله جمیل و یحب الجمال الله''
جمیل ہے وہ خوبصورتی کو دوست رکھتا ہے _
''قال النبی : لا نس یا انس اکثر من الطهور یزد الله فی عمرک فان استطعت ان تکون للیل و النهار علی طهارة فافعل فانک تکون اذا مت علی طهارة مت شهیدا''
___________________
۱) ( نہج الفصاحہ ص ۱۲۲ح ۶۱۱)_
۲) (نہج الفصاحہ ص ۱۴۲، ح ۷۰۳)_
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے انس سے فرمایا کہ بہت زیادہ باطہارت رہا کرو تاکہ خدا تمہاری عمر میں اضافہ کرے اور اگر ہوسکے تو شب و روز باطہارت رہو اگر طہارت کی حالت میں مرو گے تو شہید مروگے(۱)
''قال علی عليهالسلام تنظفوا بالماء من الراءحة المنتنة فان الله تعالی یبغض من عباده القاذورة '' (۲)
بوئے بد کو پانی سے دھو ڈالواس لئے کہ کثیف بندوں سے اللہ ناراض رہتا ہے _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنے اقوال میں نظافت اور پاکیزگی کی بڑی تاکید کی ہے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بھی ظاہری طور پر آراستہ ، معطر اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتے تھے_
امید ہے کہ اس سلسلہ میں یہ کتاب چند نمونہ پیش کر کے اس سنت کو زندہ رکھنے میں ولو مختصر لیکن موثر ثابت ہوگی _
ظاہری و باطنی طہارت :
قرآنی نص کے مطابق رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ معصومین عليهالسلام ذاتی طہارت کے مالک ہیں _
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۷۸) _
۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۷۸)_
( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (۱)
اے اہل بیت خدا کا یہ ارادہ ہے کہ وہ تم سے نجاست کو دور رکھے اور تم کو پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے _
اسی طرح آغاز بعثت میں خدا نے پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم سے فرمایا : ( و ثیابک فطهر و الرجز فاهجر ) آپ اپنے کپڑے پاک رکھیں اور گناہوں سے الگ رہیں _(۲)
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم چونکہ خدا کے برگزیدہ ہیں اس لئے اس نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ہر نجاست سے پاک بنایا اور وحی کے مبلغ کو ہر آلایش سے دور ہونا چاہیے اور اس نے حکم دیا کہ آپ ہمیشہ پاک و پاکیزہ رہیں تا کہ آپ کا ظاہر دیکھ کر لوگ متنفر نہ ہوں _
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا لباس
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم قیمتی اور فاخرہ لباس نہیں پہنتے تھے ، نہایت سادہ اورکم قیمت والا وہ لباس جو عام لوگ پہنا کرتے تھے وہی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بھی زیب تن فرماتے تھے ، لیکن اس کے باوجود لباس کے رنگ اورکپڑے کی ساخت میں اپنے حسن انتخاب کی بدولت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بہت خوبصورت نظر آتے تھے_
___________________
۱) (احزاب ۳۳)_
۲) (مدثر ۴،۵)_
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم مختلف قسم کے لباس زیب تن فرماتے تھے جیسے '' ازار'' وہ کپڑا جو کمر کے نچلے حصہ کو ڈھکتا ہے _ '' رداء '' پائے پیراہن اور '' جبہ'' و غیرہ ، سبز رنگ کالباس آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا پسندیدہ لباس تھا اور زیادہ تر سفید لباس پہنتے تھے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم فرماتے تھے : زندگی میں سفید لباس پہنو اور اپنے مردوں کو اس کا کفن دو اورآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا لباس ٹخنوں کے اوپر تک ہوتا تھا اور ازار پنڈلی تک ہوتی تھی ، تکمے ہمیشہ بند رہتے تھے کبھی نماز و غیرہ میں انھیں کھول بھی دیتے تھے_(۱)
جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر روزانہ پہنے جانے والے لباس کے علاوہ جمعہ کیلئے دو مخصوص لباس بھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس موجود تھے_(۲)
لباس سے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم صرف جسم کے چھپانے کا کام نہیں لیتے تھے بلکہ کبھی خشوع اور خدا کے نزدیک فروتنی ظاہر کرنے کیلئے موٹا اورکھرورا بھی پہنتے تھے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پیوند دار لباس پہننے میں بھی کسی طرح کی ذلت محسوس نہیں کرتے تھے_
اکثر اون کا بنا لباس پہنتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس نہیں پہنتے تھے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس اون کا ایک پیوند دار لباس تھا جس کو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم زیب تن فرماتے اور فرماتے تھے :
''انما انا عبد البس کما یلبس العبد '' (۳)
___________________
۱) ( محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۴۱)_
۲) (محجة البیضاء ج ۴ ص ۱۴۲)_
۳) ( ترجمہ احیاء العلوم الدین ج ۲ص ۱۰۶۳) _
بیشک میں ایک بندہ ہوں اور بندوں جیسا لباس پہنتا ہوں _
جناب ابوذر سے آپ نے فخر اور تکبر کو ختم کرنے کیلئے کھر درے لباس کی تاثیر بیان کرتے ہوئے فرمایا :
''اباذر انی البس الغلیظ و اجلس علی الارض و العق اصابعی و ارکب الحمار بغیر سرج و اردف خلفی، فمن رغب عن سنتی فلیس منی ، یا اباذر البس الخشن من اللباس و الصفیق من الثیاب لئلا یجد الفخر فیک سلکا ''
میں کھر درے کپڑے پہنتا ہوں ، زمین پر بیٹھتا ہوں ، کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹتا ہوں ، گدھے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتا ہوں اور اپنی سواری پر دوسروں کو بھی سوار کر لیتا ہوں ( یہ سب تواضع اور انکساری اور میری سنت کی علامتیں ہیں ) جو میری سنت سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اے ابوذر کھردرا اور موٹا لباس پہنو تا کہ فخر اور تکبر تم تک نہ آنے پائے _(۲)
کھردرا اور سیاہ رنگ کا لباس تھا جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے بدن مبارک پر برا نہیں معلوم ہوتا تھا ، آپ کے پاس ایک سیاہ رنگ کا لباس تھا جو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے کسی کو دیدیا تھا _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم سے جناب ام اسلمہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں وہ سیاہ رنگ والا لباس کہاں ہے ؟ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : میں نے کسی کو دیدیا ، ام سلمہ نے کہا: آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے گورے رنگ پر اس
___________________
۱) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ص ۲۱۷) _
سیاہ کپڑے سے زیادہ دیدہ زیب کوئی دوسرا کپڑا میں نے نہیں دیکھا _(۱)
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کسی خاص قسم کا جوتا پہننے کے پابند نہیں تھے ، حالانکہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جوتوں کی خوبصورتی بہت نمایاں ہوتی تھی _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جوتوں کے دو بند ہوا کرتے تھے اور وہ انگلیوں کے درمیان رہتے تھے، پنجوں کی طرف نعلین کا منہ پتلا ہوتا مگر نوکیلا نہیں ہوتا تھا ، اکثر دباغت شدہ کھال کے جوتے پہنتے تھے ، جوتے پہنتے وقت پہلے داہنے پیرکا جوتا پہنتے اور اتار تے وقت پہلے بائیں پیر کا جوتا اتارتے تھے اور یہ حکم دیتے تھے کہ : یا تو دونوں پیروں میں جوتے پہنو یا پھر کسی پیر میں نہ پہنو ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ کوئی ایک پیر میں جوتے پہنے اور ایک پیر بغیر جوتے کے چھوڑ دے _(۲)
خوشبو کا استعمال
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بہت زیادہ خوشبو استعمال کرتے تھے اور اصحاب سے خوشبو لگانے کی فضیلت بھی بیان کرتے تھے امام جعفر صادق فرماتے ہیں :
''کان رسول الله ینفق علی الطیب اکثر مما ینفق علی الطعام '' (۳)
___________________
۱) (مجمع البیضاء ج ۴ ص ۱۴۲) _
۲) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ص ۷۳) _
۳) (ترجمہ مکارم الاخلاق ص ۶۶) _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم خوشبو پر کھانے پینے سے زیادہ پیسے خرچ کر تے تھے _
امام باقر فرماتے ہیں :
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم جس راستے سے گزرتے تھے اس راستہ سے دو تین دن بعد گذرنے والا یہ محسوس کرلیا تھا کہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس جگہ سے گذرے ہیں ، اس لئے کہ وہاں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ہی کس خوشبو سے فضا معطر رہتی تھی ، جب بھی کسی قم کا عطر آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس لایا جاتا تھا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس کو لگاتے اور فرماتے تھے اس عطر کی خوشبو دل پسند ، اچھی اور قابل برداشت ہے _
مسواک کرنا
حفظان صحت کیلئے دانتوں کی صفائی اور دانتوں کا تحفظ بڑی اہمیت کا حامل ہے ، رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے صفائی کے ساتھ مسواک کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور اس کے مفید اثرات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہر مومن سے ہر وقت باوضو رہنے کی بڑی تاکید کی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر وضو کے ساتھ مسواک بھی کریں ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اس پر خود بھی عمل پیرا تھے_
''لم یر رسول الله قط خارجا من الغائط الاتوضئا و یتبدی بالسواک'' (۱)
رفع حاجت کے بعد رسول خدا ہمیشہ وضو کرتے تھے اور وضو کی شروعات مسواک سے
کرتے تھے _
___________________
۱) ( مجمہ البیضاء ج ۱ص ۲۹۴) _
موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ابتدا میں ہم آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چند اقوال پیش کریں گے پھر اس کے بعد آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سیرت پر بحث کریں گے _
''قال رسول الله لو لا ان اشق علی امتی لامرتهم بالسواک مع کل صلوة '' (۱)
اگر میری امت کیلئے یہ امر دشواری کا باعث نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے مسواک کرنے کا حکم دیتا _
حضرت امیرالمومنین سے فرمایا:
''یا علی ثلاث یزدن الحفظ و یذهبن السقم '' اللبان '' و السواک و قراءة القرآن'' (۲)
تین چیزویں حافظہ کو بڑھاتی اور بیماریوں کو دور کرتی ہیں اگربتی، مسواک اور قرآن کی تلاوت _
مسواک کے اچھے اثرات کے بارے میں آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ارشاد ہے :
''مطهرة للفم ، مرضاة للرب، یضاعف الحسنات سبعین ضعفا ، و هو
___________________
۱) ( بحار الانوار ج ۳ ص ۱۲۶) _
۲) (بحار الانواز ج ۷۳ص ۱۲۷)_
من السنة ، و یذهب بالحفر و یبیض الاسنان و یشد اللثةص و یقطع البلغم و یذهب بغشاوة البصر و یشهی الطعام '' (۱)
مسواک منہ کو صاف کرتی ہے ، خدا کو خوش کرتی ہے ، نیکیوں کو سترگنا بڑھا دیتی ہے یہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت ہے ، اس سے دانتوں کی زردی ختم ہوتی ہے ، انھیں سفید بناتی ہے مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے ، بلغم کو ختم کرتی ہے ، آنکھوں سے پردہ ہٹاتی ہے اور کھانے کی خواہش بڑھاتی ہے _
منہ کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے مسواک کے بارے میںآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کچھ اقوال یہ ہیں :
''قال رسول الله مازال جبرئیل یوصینی بالسواک حتی خشیت ان ادرداو احفی ''(۲)
جبرئیل نے مجھ کو مسواک کرنے کی اتنی بار تاکید کی کہ میں سوچنے لگا کہ کہیں میرے دانت گرنہ پڑیں یا گھس نہ جائیں _
جو اصحاب اس سنت پر توجہ نہیں دیتے تھے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو ان پر بڑا تعجب ہوتا تھا اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم ان کی مذمت مذمت کرتے تھے _
___________________
۱) ( بحارالانوار ج ۷۳ ص ۱۲۷) _
۲) ( بحارالانوار ج ۷۳ ص۲) _
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم مالی اراکم تدخلون علی قلحا مرغا؟ مالکم لا تستاکون؟ '' (۱)
کیا ہوا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے پاس زردی مائل اور گندے دانت لیکر آتے ہو ایسا لگتا ہے کہ کوئی حیوان گھاس چر کر میرے پاس آرہا ہے تم کو کیا ہوگیا ہے ؟ آخر تم مسواک کیوں نہیں کرتے ؟
ان دو روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم مسواک کو بڑی اہمیت دیتے تھے_
مسواک رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم مسواک کرنے کے بہت زیادہ پابند تھے اگر چہ یہ واجب نہیں تھی منقول ہے کہ آپ رات میں تین بار مسواک کرتے تھے; ایک بار سونے سے پہلے دوسری بار نماز شب کیلئے اٹھنے کے بعد اور تیسرے دفعہ نماز صبح کیلئے مسجد جانے سے پہلے ، جبرئیل کے کہنے کے مطابق اراک کی لکڑی (حجاز میں ایک لکڑی ہوتی ہے جس کو آج بھی مسواک کے طور پر استعمال کیا جاتاہے ) سے مسواک کرتے تھے_(۲)
ائمہ نے بھی مسواک کرنے کو آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت بتایا ہے_
___________________
۱) (بحارالانوار ج ۷۳ص ۱۳۱) _
۲) (بحارالانوار ج۷۳ ص ۱۳۵)_
قال علی عليهالسلام :
'' لسواک مرضات الله و سنة النبی صلىاللهعليهوآلهوسلم و مطهرة للفم '' (۱)
مسواک کرنے میں خدا کی خوشنودی پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت اور منہ کی صفائی ہے _
ذیل کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم قوموں میں منہ کی پاکیزگی کو انکے لیے امتیاز اور فضیلت شمار کرتے تھے_
''قال الصادق عليهالسلام ; لما دخل الناس فی الدین افواجا قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم اتتهم الازد ارقها قلوبا و اعذبها افواها فقیل: یا رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم هذا ارقها قلوبا عرفناه صارت اعذبها افواها ؟ قال انها کانت تستاک فی الجاهلیة'' (۲)
امام جعفر صادق عليهالسلام نے فرمایاکہ جب گروہ در گروہ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو رسول خدا نے فرمایا: قبیلہ '' ازد'' کے لوگ اس حالت میں ائے کے وہ دوسروںسے زیادہ نرم دل تھے اوران کے منہ صاف تھے، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ہم نے ان کی نرم دل تو جان لی مگر ان کے منہ کیسے صاف ہوئے؟ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: یہ قوم وہ ہے جو جاہلیت کے زمانہ میں بھی مسواک کرتی تھی_
___________________
۱) (بحارالانوار ج۷۳ ص ۱۳۳)_
۲) (بحارالانوار ج۷۳ ص ۱۳۷)_
خلاصہ درس
۱ ) اسلامی تہذیب میں گندگی سے جسم کو صاف کرنے اور اسے آراستہ رکھنے کو گناہ کی گندگی سے روح کے پاکیزہ رکھنے اور آب توبہ سے دھونے کے مرادف قرار دیا گیا ہے _
۲ ) رسو لخدا صلىاللهعليهوآلهوسلم نے '' اسوہ حسنہ'' کے عنوان سے اپنے بہت سے اقوال میں نظافت اور صفائی کی تاکید فرمائی ہے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بھی صاف ستھرے ، معطر اور دیکھنے میں خوبصورت نظر آئے تھے_
۳ ) پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم ا گر چہ کم قیمت والا ایسا سادہ لباس پہنتے تھے جو عام افراد استعمال کرتے ہیں اس کے باوجود رنگ لباس اور اسکی ساخت میں آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا حسن انتخاب ایسا تھا کہ وہ لباس آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے جسم پر خاص زیبائی دیتا تھا_
۴) آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم بہت زیادہ خوشبو استعمال فرماتے تھے اور اس کی خوبیاں اصحاب کی سامنے بیان کرتے تھے_
۵ ) صفائی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم مسواک کی بھی تعلیم دیتے تھے اور اس کے اچھے اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے تھے_
۶ ) آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم رات کو تین بار مسواک کرتے تھے ، سونے سے پہلے نماز شب کیلئے بیدارہونے کے بعد اور مسجد میں نماز صبح کیلئے جانے سے پہلے_
سوالات :
۱ _ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی روایت سے صفائی کی اہمیت بیان کیجئے؟
۲ _ لباس اور جوتے کے پہننے میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا رویہ تھا؟ اجمالی طور پر لکھیں؟
۳ _ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم خوشبو کی بڑی اہمیت دیتے تھے اس سلسلہ میں امام جعفر صادق عليهالسلام کی روایت بیان فرمائیں ؟
۴ _ رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی ایک روایت کی ذریعہ مسواک کرنے کی اہمیت بیان کیجئے؟
۵_ جو لوگ مسواک نہیں کرتے تھے ان کے ساتھ حضور صلىاللهعليهوآلهوسلم کا کیا سلوک تھا؟
بیسواں سبق:
(کنگھی کرنا اور دیگر امور)
شروع ہی سے رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سر کے بال تو صاف رکھنے پر بہت توجہ دیتے تھے اور اسے بیری کے پتوں سے صاف کیا کرتے تھے_
''کان اذا غسل رأسه و لحیته غسلها بالسدر''
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے سر اور ڈاڑھی کو سدر (بیری کے پتوں) سے دھوتے تھے_
بالوں کو صاف کرنے کے بعد ان کو سنوارنے اور ترتیب سے رکھنے کی تاکید فرماتے تھے_
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم : من کانت له شعرة فلیکرمها'' (۱)
جس کے بال موجود ہوں اسے چاہے کہ انکا احترام کرے_
___________________
۱) (محجة البیضاء ج۱ ص ۲۰۹)_
''من اتخذ شعراً فلیحسن و لایته او لیجذه'' (۱)
جو بال رکھے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی خوب نگہداشت بھی کرے ورنہ ان کو کٹوا دے_
اچھے اور خوبصورت بالوں کی تعریف کرتے ہوئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
''الشعر الحسن من کسوة الله فاکرموه'' (۲)
خوبصورت بال خدا کی عنایت ہیں ان کا احترام کرو _
( یعنی ان کو سنوار کررکھو) آپ اپنے بالوں کو صاف کرتے اور اس میں تیل لگاتے تھے نیز دوسروں کو اس تعلیم دیتے تھے_
''کان رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم یدهن الشعر و یرجله غباء و تامره به و یقول : اومنو غباء'' (۳)
رسول خدا ایک دن ناغہ کرکے سر میں تیل لگاتے اور کنگھی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ : ایک دن چھوڑ کر بالوں میں تیل لگاو_
جب آپ اصحاب سے ملاقات کرنے کے لئے نکلتے تو اس وقت بالوں میں کنگھی کرکے اور ظاہری آرائشے کے ساتھ نکلتے تھے_(۴)
___________________
۱) (محجة البیضاء ج۱ ص ۲۱۰)_
۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۲ ص ۱۳۴)_
۳) (محجة البیضاء ج۱ص ۳۰۹)_
۴) (محجة البیضاء ج۱ ص ۳۰۹)_
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم آئینہ دیکھ کر بالوں کو صاف کرتے اور کنگھی کرتے ، کبھی پانی میں دیکھ کر بالوں کو صاف کرلیا کرتے تھے، آپ فرماتے تھے کہ : جب کوئی شخص اپنے دوستوں کے پاس جائے تو اپنے کو آراستہ کرے یہ بات خدا کو پسند ہے_(۱)
الجھے ہوئے بالوں اور نامناسب وضع و قطع سے آپ نفرت فرماتے تھے_ ایک شخص آپ نے فرمایا کیا اس کو تیل نہیں ملا تھا جو اپنے بالوں کو سنوار لیتا _ اس کے بعد آپ نے فرمایا : تم میں سے بعض افراد میرے پاس شیطان کی ہیءت بناکر آتے ہیں _
سرکے بالوں کی لمبائی
آپ کے سرکے بالوں کے بارے میں روایت ہے کہ :
آپ کے سر کے بال بڑی ہوکر کان کی نچلی سطح تک پہنچ جاتے تھے_(۲)
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے سر کے بال چھوٹے تھے_ امام جعفر صادق عليهالسلام کے زمانہ میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ آپ کے سر کے بال بھی بڑے ہوا کرتے تھے اور آپ درمیان سے مانگ نکالتے تھے، امام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: '' لوگ مانگ نکالنا رسول کی سنت سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ سنت نہیں ہے _
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص۶۷)_
۲) (محجة البیضاء ج۱ ص ۳۰۹)_
اس شخص نے کہا کہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیںکہ پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم مانگ نکالتے تھے امام نے فرمایا :پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم مانگ نہیں نکالتے تھے(اصولی طور پر ) انبیاء کرام بڑے بال نہیں رکھتے تھے_(۱)
بالوں میں خضاب لگانا
روایات کے مضمون سے پتہ چلتاہے کہ سر کے بال اگر سفید ہوجائیں تو اسلام کی نظر میں انھیں نورانیت ہوتی ہے اس کے باوجود پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے اقوال سے پتہ چلتاہے کہ سیاہ اور حنائی بال جوانی کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں اور مرد کونشاط و ہیبت عطا کرتے رہتے ہیں ، اسی وجہ سے خضاب کی تاکید کی گئی ہے_
امام جعفر عليهالسلام سے منقول ہے کہ : ایک شخص رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں آیا، آپ نے اس کی داڑھی کے سفید بال ملاحظہ فرمائے اور فرمایا نورانی ہے وہ جن کے بال اسلام میں سفید ہوجائیں، اس کے لیے یہ سفیدی قیامت میں نورانیت کا سبب ہے ، دوسری بار وہ حنا کا خضاب لگاکر پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے پاس آیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : یہ نورانی بھی ہے اور مسلمان ہونے کی علامت بھی ، وہ شخص پھر ایک دن آپ کی خدمت میں پہنچا اور اس دن اس نے بالوں میں سیاہ خضاب لگا رکھا تھا، آپ نے فرمایا نورانی بھی ہے اور عورتوں کی محبت اور دشمنوں
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۱۳۵)_
کے خوف کا سبب ہے_(۱)
خضاب کے سب سے اچھے رنگ کے بارے میں آپ نے فرمایا :
''احب خضابکم الی الله الحالک'' (۲)
خداکے نزدیک تمہارا سب سے زیادہ محبوب خضاب سیاہ رنگ کا خضاب ہے_
انگوٹھی
آرائشے کی چیزوں میں حضور رسول اکرم صرف انگوٹھی پہنتے تھے، اسی انگوٹھی سے مہر بھی لگاتے تھے تاریخ میں انگوٹھی کے علاوہ آرائشے کی اور کوئی چیز درج نہیں ہے _ آپ کی انگوٹھی خصوصاً اس کے نگینہ کے بارے میں البتہ مختلف روایتیں ہیں_
مجموعی طور پر آنحضرت اور ائمہ کے اقوال میں : عقیق اور یاقوت کی چاندی کی انگوٹھی تاکید ملتی ہے _
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم : تختموا بخواتیم العقیق فانه لا یصیب احدکم غم مادام علیه'' (۳)
عقیق کی انگوٹھی ، پہنو جب تک تمہارے ہاتھوں میں یہ انگوٹھی رہے گی تم کو کوئی غم نہیں پہنچے گا_
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۵۰)_
۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق'' ج۱ ص ۱۴۹)_
۳) ( مکارم الاخلاق مترجم ص ۱۶۴)_
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم ; التحتم بالیاقوت ینفی الفقر و من تختم بالعقیق یوشک ان یقضی له بالحسنی '' (۱)
یاقوت کی انگوٹھی پہننے سے فقر دور ہوجاتاہے، جو شخص عقیق کی انگوٹھی پہنتاہے امید کی جاتی ہے خوبیاں اس کے لئے مقدر ہوگئی ہیں _
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مختلف قسم کی انگوٹھیوں کے بارے میں لکھا ہے _
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم چاندی کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے جس کا نگینہ حبشہ سے آیا تھا_ معاذ بن جبل نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو لوہے کی چاندی جیسی ایک انگوٹھی دی تھی اس پر '' محمد رسول اللہ'' نقش تھا وفات کے وقت جو سب سے آخری انگوٹھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہاتھوں میں تھی وہ چاندی کی انگوٹھی تھی جس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا یہ ویسی ہی انگوٹھی تھی جیسی لوگ پہنا کرتے ہیں، اس پر بھی '' محمدرسول اللہ'' لکھا ہوا تھا_ روایت میں ہے کہ انتقال کے وقت آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے داہنے ہاتھ میں وہ انگوٹھی وجود تھی ، انگوٹھی ہی سے مہر کا کام بھی لیتے اور فرماتے تھے مہر لگاہوا خط تہمت سے بری ہوتاہے _(۲)
جسم کی صفائی
رسول خدا ہر ہفتہ ناخن کاٹتے جسم کے زاءد بال صاف کرتے اور مونچھوں کے بال
___________________
۱) (مکارم الاخلاق مترجم ص ۱۶۵)_
۲) (مکارم الاخلاق مترجم ج۱ ص۷۲)_
چھوٹے کرتے ، آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم صلىاللهعليهوآلهوسلم اور ائمہ عليهالسلام کے اقوال سے ناخن کاٹنے مونچھوں کے بال چھوٹے کرنے کے طبی اور نفسیاتی فواءد ظاہر ہوتے ہیں ، نیز اس کے ایسے مفید نتاءج کا پتہ چلتاہے جو دنیا اور آخرت کی بھلائی کا سبب ہیں ، ان میں سے کچھ اقوال یہاں نقل کئے جارہے ہیں :
''عن النبی صلىاللهعليهوآلهوسلم قال: من قلم اظفاره یوم الجمعة أخرج الله من أنامله داء و ادخل فیه شفا'' (۱)
جو شخص جمعہ کے دن اپنے ناخن تراشے خدا اس کو انگلیوں کے درد سے نجات دیتاہے اور اس میں شفا ڈالتاہے_
''قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم : من قلم اضفاره یوم السبت و یوم الخمیس و اخذ من شار به عوفی من وجع الاضراس و وجع العینین'' (۲)
جو شخص ہفتہ اور جمعرات کے دن اپنے ناخن تراشے اور مونچھوں کے بالوں کو چھوٹا کرے وہ دانتوں اور آنکھوں کے درد سے محفوظ رہے گا _
امام جعفر صادق عليهالسلام عليهالسلام سے منقول ہے کہ : رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم سے وحی منقطع ہوگئی تو لوگوں نے پوچھا کہ وحی کیوں منقطع ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہ منقطع ہو حالت یہ کہ تم اپنے ناخن نہیں تراشتے اپنے جسم سے بدبو دور نہیں کرتے_
___________________
۱) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۱۲۳ ، ۱۲۴)_
۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ )_
''عن الصادق عليهالسلام : قال رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم لا یطولن احدکم شار به فان الشیطان یتخذه مخباء یستتر به '' (۱)
تم میں سے کوئی اپنی مونچھیں لمبی نہ کرے، اس لئے کہ شیطان اس کو اپنی پناہ گا ہ بناکر اس میں چھپ جاتاہے_
منقول ہے کہ : آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی کہ جن کی داڑھی بڑھی ہوئی اور بے ترتیب تھی آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: اگر یہ شخص اپنی داڑھی درست کرلیتا تو کیا حرج تھا آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا فرمان سننے کے بعد اس نے داڑھی کی اصلاح کرلی اور پھر آنحضرت کے پا س آیا تو آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا: ہاں اسی طرح اصلاح کیا کرو_(۲)
بدن کے زاءد بالوں کو صاف کرنے کی بھی تاکید فرماتے تھے چنانچہ ارشاد ہے:
اگر کوئی شخص اپنی بغل کے بالوں کو بڑھا ہوا چھوڑ دے تو شیطان اس میں اپنی جگہ بنالیتاہے_(۳)
تم میں سے مردو عورت ہر ایک اپنے زیر ناف کے بالوں کو صاف کرے _(۴)
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اس پر خود بھی عمل کرتے تھے اور ہر جمعہ کو اپنے جسم کے زاءد بالوں کو صاف
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۴۵)_
۲) ( ترجمہ مکارم الاخلاق ج ۱ ص ۱۲۸)_
۳) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۲۸)_
۴) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۱۱۵)_
۵) (محجة البیضاء ج۱ ص ۳۲۷)_
کرتے تھے_(۱)
تیل کی مالش
صفائی اورآرائشے کی خاطرآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے جسم پر تیل کی مالش کیا کرتے تھے ، حفظان صحت اور جلد کی صفائی کے بارے میں ڈاکٹروں کے درمیان تیل کی مالش کے فواءد کا ذکر کررہتاہے_
رسول مقبول صلىاللهعليهوآلهوسلم نے جس چیز پر عمل کیا اور جن کو مسلمانوں کے لیے سنت بنا کر یادگار کے طور پر چھوڑا ہے اسکی تایید اس سلسلہ میں بیان کئے جانے والے دانشوروں کے اقوال سے ہوجاتی ہے_(۲)
آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سر اور داڑھی کے بال کی آرائشے کے لیے مناسب روغن استعمال فرماتے تھے اور حمام لینے کے بعد بھی جسم پر تیل ملنے کی تعلیم فرماتے تھے اور اس پر خود بھی عمل پیرا تھے_
'' جسم پر تیل ملنے کو اچھا سمجھتے تھے الجھے ہوئے بال آپ کو بہت ناپسند تھے، آپ فرماتے تھے ، تیل سے درد ختم ہوجاتاہے ، آپ جسم پر مختلف قسم کے تیل کی مالش کرتے
___________________
۱) ( محجة البیضاء ج۱ ص ۳۲۷)_
۲) (ملاحظہ ہو کتاب اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر)_
تھے، مالش کرنے میں سر اور داڑھی سے شروع کرتے اور فرماتے تھے کہ سر کو داڑھی پر مقدم کرنا چاہیئے، روغن بنفشہ بھی لگاتے تھے اور کہتے تھے کہ ; روغن بنفشہ بہت اچھا تیل ہے ، روغن ملنے میں ابرو پہلے مالش کرتے تھے، مونچھوں پر تیل لگاتے تھے، پھر ناک سے سونگھتے تھے، پھر سر کو روغن سے آراستہ کرتے تھے، دردسر رفع کرنے کے لئے ابروپرتیل لگاتے تھے_(۱)
سرمہ لگانا
سرمہ لگانے سے آنکھوں کی حفاظت ہوتی ہے رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بھی سرمہ لگاتے تھے نیز آپ نے سرمہ لگانے کے آداب بھی بیان کئے ہیں منقول ہے کہ :
آنحضرت داہنی آنکھ میں تین سلائی اور بائیں آنکھ میں دو سلائی سرمہ لگاتے تھے اورفرماتے تھے کہ : جو تین سلائی سرمہ لگانا چاہے وہ لگاسکتاہے، اگر اس سے کم یا زیادہ لگانا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، کبھی حالت روزہ میں بھی سرمہ لگا لیتے تھے_ آپ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے رات کے وقت سرمہ لگاتے تھے آپ جو سرمہ لگاتے تھے وہ سنگ سرمہ تھا_(۲)
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۶۴)_
۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص۶۷)_
امام جعفر صادق عليهالسلام سے روایت ہے کہ ایک صحرائی عرب جن کا نام '' قلیب رطب العینین'' تھا (قلیب کے معنی تر آنکھیں ہیں درد کی وجہ سے اس کی آنکھیں مرطوب رہتی تھیں ) پیغمبر کی خدمت میں پہنچا آپ نے فرمایا کہ : اے قلیب تہاری آنکھیں تر نظر آرہی ہیں تم سرمہ کیوں نہیں لگاتے ، سرمہ آنکھوں کا نور ہے _
ائمہ سے بھی اس بے بیش قیمت ہوتی (آنکھ) کے تحفظ کے لئے ارشادات موجود ہیں_
امام محمد باقر عليهالسلام نے فرمایا کہ : اگر سنگ سرمہ کا سرمہ لگایا جائے تو اس سے پلکیں آگ آتی ہیں ، بینائی تیز ہوجاتی ہے اور شب زندہ داری میں معاون ہوتی ہے _(۱)
امام رضا عليهالسلام سے مروی ہے کہ جن کی آنکھیں کمزور ہوں وہ سوتے وقت سات سلائی سرمہ لگائے، چار سلائی داہنی آنکھ میں اور تین سلائی بائیں آنکھ میں ، اس سے پلکیں آگ آتی ہیں ، آنکھوں کو جلا ہوتی ہے خداوند عالم سرمہ میں تیس سال کا فائدہ عطا کرتاہے_(۲)
___________________
۱) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص ۸۸)_
۲) (ترجمہ مکارم الاخلاق ج۱ ص۸۸)_
خلاصہ درس
۱) نظافت آرائشے اور سرکے بالوں کو سنوارنے کے بارے میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم تاکید فرماتے تھے_
۲) اصحاب سے ملاقات کے وقت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم بالوں میں کنگھی کرتے او ر ظاہری طور پر آراستہ ہوکر تشریف لے جاتے تھے_
۳ ) روایت سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کسر کے بال چھوٹے تھے_
۴ ) آرائشے کی چیزوں میں رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم صرف اپنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور اسی سے خطوط پر مہر لگانے کا بھی کام لیتے تھے_
۵ ) ہر ہفتہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے ناخن کا ٹتے ، جسم کے زاءد بالوں کو صاف کرتے اور مونچھوں کو کوتا ہ فرماتے تھے_
۶ ) صفائی اور آرائشے کے لئے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم جسم پر تیل بھی لگاتے تھے_
۷) آنکھوں میں سرمہ لگانے سے آنکھوں کی حفاظت ہوتی ہے _ رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم خود بھی سرمہ لگاتے تھے نیز سرمہ لگانے کے آداب بھی آپ نے بیان فرمائے ہیں _
سوالات :
۱_ بالوں کو سنوارنے اور صاف رکھنے کے لئے رسول خدا نے کیا فرمایا ہے ؟
۲ _ سرکے کتنے بڑے بال رسول خدا کی سنت شمار کئے جائیں گے _
۳ _ سر کے بالوں کے لئے رسول خدا کے نزدیک کس رنگ کا خضاب سب سے بہتر ہے؟
۴ _ رسول خدا اپنے ہاتھوں کی آرائشے کے لئے کون سی چیز استعمال کرتے تھے، اس سلسلہ کی ایک روایت بھی بیان فرمائیں ؟
۵ _ حفظان صحت کے لئے آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم ہر ہفتہ کون سے اعمال انجام دیتے تھے؟
فہرست
پہلا سبق: ۴
(ادب و سنت ) ۴
پہلا نکتہ : ۵
دوسرا نکتہ : ۵
ادب اور اخلاق میں فرق ۷
رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ادب کی خصوصیت ۸
الف: حسن وزیبائی ب: نرمی و لطافت ج: وقار و متانت ۸
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے آداب ۹
خدا کے حضور میں ۹
وقت نماز ۹
دعا کے وقت تسبیح و تقدیس ۱۲
بارگاہ الہی میں تضرع اور نیازمندی کا اظہار ۱۳
لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ۱۴
گفتگو ۱۵
مزاح ۱۵
کلام کی تکرار ۱۶
انس و محبت ۱۷
خلاصہ درس ۱۹
سوالات : ۲۰
دوسرا سبق: ۲۱
(لوگوں کے ساتھ آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کا برتاؤ) ۲۱
سلام ۲۱
مصافحہ ۲۲
رخصت کے وقت ۲۲
پکارتے وقت ۲۳
پکار کا جواب ۲۳
ظاہری آرائشے ۲۴
مہما نوازی کے کچھ آداب ۲۵
عیادت کے آداب ۲۵
حاصل کلام ۲۶
کچھ اپنی ذات کے حوالے سے آداب ۲۷
آرائش ۲۸
کھانے کے آداب ۲۸
کم خوری ۲۹
آداب نشست ۳۰
ہاتھ سے غذا کھانا ۳۱
کھانا کھانے کی مدت ۳۱
ہر لقمہ کے ساتھ حمد خدا ۳۲
پانی پینے کا انداز ۳۲
سفر کے آداب ۳۳
زاد راہ ۳۳
ذاتی ضروریات کے سامان ۳۴
سونے کے آداب ۳۵
خلاصہ درس ۳۶
سوالات : ۳۷
تیسرا سبق: ۳۸
(پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا طرز معاشرت) ۳۸
صاحبان فضیلت کا اکرام ۳۹
حاتم کی بیٹی ۴۰
بافضیلت اسیر ۴۱
نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا ۴۲
رخصت اور استقبال ۴۳
انصار کی دلجوئی ۴۳
جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال ۴۵
جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام ۴۷
شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام ۴۹
ایمان یا دولت ۵۱
ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن ۵۳
خلاصہ درس ۵۴
سوالات : ۵۵
چوتھا سبق: ۵۶
(پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مہربانیاں) ۵۶
گھر والوں سے محبت و مہربانی ۵۶
خدمتکار کے ساتھ مہربانی ۵۷
امام زین العابدین عليهالسلام کا خادم ۵۹
اصحاب سے محبت ۵۹
جابر پر مہربانی ۶۰
بچوں اور یتیموں پر مہربانی ۶۰
امام عليهالسلام یتیموں کے باپ ۶۲
گناہگاروں پر مہربانی ۶۲
اسیروں پر مہربانی ۶۴
ثمامہ ابن اثال کی اسیری ۶۵
دوسروں کے حقوق کا احترام ۶۶
بیت المال کی حفاظت ۶۷
حضرت علی عليهالسلام اور بیت المال ۶۸
بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا ۶۹
مدد کی درخواست ۷۰
بے نیاز اور ہٹے کٹے آدمی کیلئے صدقہ حلال نہیں ۷۱
ایک دوسرے کی مدد کرنا ۷۲
دشمنوں کے ساتھ آپکا برتاو ۷۳
خلاصہ درس ۷۵
سوالات : ۷۶
پانچواں سبق: ۷۷
(عہد کا پورا کرنا) ۷۷
پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے عہد و پیمان ۷۹
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ذاتی عہد ویمان ۸۰
اجتماعی معاہدوں کی پابندی ۸۲
مشرکین سے معاہدوں کی پابندی ۸۳
خلاصہ درس ۸۸
سوالات : ۸۹
چھٹا سبق: ۹۰
(یہودیوں کیساتھآنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کے معاہدے) ۹۰
معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کا برتاو ۹۱
بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی ۹۲
۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی ۹۴
۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی ۹۶
خلاصہ درس ۹۹
سوالات : ۱۰۰
ساتواں سبق: ۱۰۱
(صبرو استقامت) ۱۰۱
صبر کے اصطلاحی معنی : ۱۰۱
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم صابر اور کامیاب ۱۰۴
مختلف قسم کی بہت سی مخالفتیں اور اذیتیں ۱۰۶
زبانوں کے زخم ۱۰۶
خلاصہ درس ۱۰۹
سوالات ۱۱۰
آٹھواں سبق: ۱۱۱
(جسمانی اذیت) ۱۱۱
میدان جنگ میں صبر کا مظاہرہ ۱۱۴
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی استقامت ۱۱۶
کفار و مشرکین سے عدم موافقت ۱۱۷
دھمکی اور لالچ ۱۱۸
ابوجہل کی دھمکی ۱۱۹
خلاصہ درس ۱۲۲
سوالات : ۱۲۳
نواں سبق: ۱۲۴
(پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم رحمت) ۱۲۴
عفو، کمال کا پیش خیمہ ۱۲۷
عفو میںدنیا اور آخرت کی عزت ۱۲۷
عزت دنیا ۱۲۸
کلام رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم ۱۲۸
آخرت کی عزت ۱۲۹
رسول خدا کی عزت ۱۳۱
اقتدار کے باوجود درگذر ۱۳۲
لطف و مہربانی کا دن ۱۳۲
آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کے چچا حمزہ کا قاتل ۱۳۴
ابوسفیان کی بیوی عتبہ کی بیٹی ہند ۱۳۵
ابن زبعری ۱۳۵
مولائے کاءنات حضرت علی عليهالسلام ۱۳۸
خلاصہ درس ۱۴۰
سوالات : ۱۴۱
دسواں سبق: ۱۴۲
(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر) ۱۴۲
اعرابی کا واقعہ ۱۴۲
امام حسن مجتبی اورشامی شخص ۱۴۴
امام سجاد عليهالسلام اور آپ کا ایک دشمن ۱۴۵
مالک اشتر کی مہربانی اور عفو ۱۴۶
ظالم سے درگذر ۱۴۸
امام زین العابدین عليهالسلام اور ہشام ۱۴۹
امام رضا عليهالسلام اور جلودی ۱۵۱
سازش کرنے والے کی معافی ۱۵۲
ایک اعرابی کا واقعہ ۱۵۳
یہودیہ عورت کی مسموم غذا ۱۵۴
علی عليهالسلام اور ابن ملجم ۱۵۵
سختی ۱۵۶
مخزومیہ عورت ۱۵۷
خلاصہ درس ۱۵۹
سوالات ۱۶۰
گیارہواں سبق: ۱۶۱
(شرح صدر) ۱۶۱
وسعت قلب پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ۱۶۳
بد دعا کی جگہ دعا ۱۶۴
ایک اعرابی کی ہدایت ۱۶۴
تسلیم اور عبودیت ۱۶۶
پیغمبر کی نماز ۱۶۷
پیغمبر کی دعا ۱۶۹
پیغمبر کا استغفار ۱۷۰
پیغمبر کا روزہ ۱۷۱
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا اعتکاف ۱۷۲
خدا کی مرضی پر خوش ہونا ۱۷۳
خلاصہ درس ۱۷۴
سوالات؟ ۱۷۵
بارہواں سبق: ۱۷۶
(مدد اور تعاون ) ۱۷۶
جناب ابوطالب کے ساتھ تعاون ۱۷۹
مسجد مدینہ کی تعمیر میں شرکت : ۱۷۹
خندق کھودنے میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شرکت ۱۸۰
کھانا تیار کرنے میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شرکت ۱۸۲
شجاعت کے معنی : ۱۸۳
شجاعت رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم : ۱۸۳
رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم کی شجاعت علی عليهالسلام کی زبانی : ۱۸۳
خلاصہ درس : ۱۸۶
سوالات : ۱۸۷
تیرہواں سبق: ۱۸۸
(پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بخشش و عطا ) ۱۸۸
سخاوت کی تعریف : ۱۸۹
سخاوت کی اہمیت : ۱۹۱
سخاوت کے آثار : ۱۹۲
۱ _ بہت بولنے والا سخی ۱۹۲
۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے : ۱۹۳
دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا : ۱۹۴
اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سخاوت ۱۹۴
خلاصہ درس : ۱۹۶
سوالات : ۱۹۷
چودھواں سبق: ۱۹۸
(سخاوت ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خداداد صفت ) ۱۹۸
صدقہ کو حقیر جاننا ۱۹۹
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کمال سخاوت یا ایثار ۲۰۱
دو طرح کے مسائل ۲۰۲
الف _ ساءل کے سوال کا جواب ۲۰۲
ب_ کام کرنے کی ترغیب ۲۰۳
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی بخشش کے نمونے ۲۰۵
لباس کا عطیہ ۲۰۵
ایک با برکت درہم ۲۰۶
سخاوت مندانہ معاملہ ۲۰۸
خلاصہ درس ۲۰۹
سوالات : ۲۱۰
پندرہواں سبق: ۲۱۱
(دعا ) ۲۱۱
دعا کیا ہے : ۲۱۱
دعا کی اہمیت اور اس کا اثر : ۲۱۲
دعا عبادت ہے _ ۲۱۳
دعا کے وقت آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم کی کیفیت : ۲۱۵
عبادت کے اوقات میں دعا ۲۱۵
اذان کے وقت کی دعا : ۲۱۵
نماز صبح کے بعد : ۲۱۶
نماز ظہر کے بعد : ۲۱۷
سجدے میں دعا : ۲۱۸
دعا اور روزمرہ کے امور ۲۱۸
صبح و شام : ۲۱۸
کھانے کے وقت کی دعا : ۲۱۹
وقت خواب کی دعا : ۲۲۱
وقت سفر کی دعا : ۲۲۲
مسافر کو رخصت کرتے وقت کی دعا: ۲۲۳
خلاصہ درس ۲۲۴
سوالا ت ۲۲۵
سولہواں سبق: ۲۲۶
(خاص جگہوں پر پڑھی جانیوالی دعا) ۲۲۶
قبرستان سے گذرتے وقت کی دعا ۲۲۷
مخصوص اوقات کی دعا ۲۲۷
دعائے رؤیت ہلال ۲۲۷
ماہ رمضان کے چاند دیکھنے کے بعد کی دعا ۲۲۸
دعائے روز عرفہ ۲۲۹
سال نو کی دعا ۲۳۰
جنگ کے وقت دعا ۲۳۲
جنگ بدر میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا ۲۳۲
جنگ خندق میں پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعا ۲۳۴
بارش برسنے کیلئے دعا ۲۳۷
وقت آخر کی دعا ۲۳۸
خلاصہ درس ۲۳۹
سوالات : ۲۴۰
سترہواں سبق: ۲۴۱
(حسن کلام) ۲۴۱
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کے کلام کا حسن اور جذابیت ۲۴۴
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کا مزاح ۲۴۶
مزاح مگر حق ۲۴۶
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی مزاح کے نمونے ۲۴۹
اصحاب کا مزاح ۲۵۱
خلاصہ درس ۲۵۴
سوالات ۲۵۵
اٹھارہواں سبق: ۲۵۶
(تواضع ) ۲۵۶
بادشاہ نہیں ، پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم ۲۵۸
اصحاب کے ساتھ تواضع ۲۶۱
اصحاب کیساتھ گفتگو کا انداز : ۲۶۳
بچوں کے ساتھ تواضع کے ساتھ برتاو ۲۶۴
زندگی کے تمام امور میں فروتنی ۲۶۵
ذاتی کاموں میں مدد نہ لینا ۲۶۶
رسول خدا صلىاللهعليهوآلهوسلم کی انکساری کے دوسرے نمونے ۲۶۷
خلاصہ درس ۲۷۰
سوالات : ۲۷۱
انیسواں سبق: ۲۷۲
(پاکیزگی اور آرائش) ۲۷۲
ظاہری و باطنی طہارت : ۲۷۴
پیغمبر صلىاللهعليهوآلهوسلم کا لباس ۲۷۵
خوشبو کا استعمال ۲۷۸
مسواک کرنا ۲۷۹
مسواک رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی سنت ۲۸۲
خلاصہ درس ۲۸۴
سوالات : ۲۸۵
بیسواں سبق: ۲۸۶
(کنگھی کرنا اور دیگر امور) ۲۸۶
سرکے بالوں کی لمبائی ۲۸۸
بالوں میں خضاب لگانا ۲۸۹
انگوٹھی ۲۹۰
جسم کی صفائی ۲۹۱
تیل کی مالش ۲۹۴
سرمہ لگانا ۲۹۵
خلاصہ درس ۲۹۷
سوالات : ۲۹۸